اتوار، 6 جنوری، 2013

ٹھنڈی آئی رضائی لائی

موسموں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس جہاں رنگ وبو کی رنگینیاں اور رعنائیاں انہی موسموں کی آمد ورفت سے قائم ہے۔ کبھی گرمی آتی ہے اور ہمیں بے شرمی کی حد تک ننگا کردیتی ہے، معاً اس کے بعد سردی دستک دیتی ہے اور منوں اونی پوشاک اوڑھا کر بے چارہ بنا دیتی ہے۔ کبھی آسمانوں پر کالے کالے بادل منڈلانے لگتے ہیں اور جھوم جھوم کر پیاسی زمین کو ترو تازہ کردیتے ہیں۔ کبھی سورج اتنا قہر ڈھاتا ہے کہ زمین کی چھاتی شدت پیاس سے پھٹ جاتی ہے اور زندگی گذارنی مشکل ہوجاتی ہے۔ کبھی خزاں کا موسم آتا ہے اور کھیتوں کی ہریالی، درختوں کی شادابی، چہروں کی چمک تمام چیزیں چھین لے جاتا ہے لیکن پھر فصل بہاراں تمام جہان کو اپنے آغوش میں لے لیتا ہے اور ہر طرف شادابی وہریالی اور رونق وزینت کی بہار آجاتی ہے۔ ان موسموں کی تاثیر اور ان کی شدت وحدت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ کسی سال گرمی اپنے سابقہ تمام ریکارڈوں کو توڑ دیتی ہے تو کبھی سردی اندازوں سے بڑھ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کرتی ہے۔ 
اس سال بھی سردی اپنے پورے شباب اور جوبن کے ساتھ لوگوں کو لبھانے آئی ۔ خیر اکتوبر کا مہینہ تو خیر وخوبی کے ساتھ گذر گیا، اس ماہ سردی نے اپنی آمد کی اطلاع دے دی اور اپنے تیور سے بھی لوگوں کو خبردار کردیا۔ نومبر اور دسمبر میں تو اس کے چہرے کی سلوٹیں اور اس کے تیور تاریخ رقم کرنے پر کمر بستہ تھے چنانچہ جنوری میں اس نے سنگ میل طے کرکے نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ اس سردی اور اس کے بے رحم ٹھنڈ تھپیڑوں سے مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے عباس بھائی دوڑ کر بازار سے رضائی خرید لائے۔ انہوں نے رضائی کیا خریدی گھر میں مہا بھارت شروع ہوگیا۔ ہر کوئی سردی کو اپنا دشمن بتاتے ہوئے رضائی پر اپنا حق استعمال جتانے لگا۔ اس مہا بھارت کی تفصیل بتانے سے قبل میں یہ بتانا بہتر سمجھتا ہوں کہ عباس بھائی میری ہی طرح افزائش نسل کی کثرت اور کثیر العیال فلسفہ کے قائل ہیں۔ وہ تین یا پانچ سال کے بجائے ہر سال ایں قدر اور آں قدر پر یقین رکھتے ہیں اور اس یقین محکم پر ان کا عمل پیہم بھی جاری ہے۔ الحمد للہ تیس کے دہاکے ہی میں انہوں نے چھ سات سرمایہ ذخیرہ کر رکھا ہے اور بڑھاپے کی زائد از پنچ لاٹھیاں اکٹھی کرچکے ہیں۔ 
تو خیر بال چل رہی تھی رضائی کی خریداری کے بعد برپا ہوئی مہا بھارت کی ۔ان کا دو بیڈ کا لیونگ روم ہے اور افراد ہیں سات۔ اب بے چاری رضائی ہے ایک اس کنارے سے اس کنارے تک کو اپنے دامن میں سمیٹنا اس کے بس سے باہر تھا۔ اب ہوتا یہ کہ ابتدائی شب میں تو ہر کوئی تھوڑے تھوڑے حصہ پر براجمان ہوجاتا لیکن درمیانی شب میں جب کوئی کروٹ لیتا تو دوسرے کی پیٹھ کھل جاتی اور دور کھڑا ظالم سردی اپنا پنجہ استبداد اس پر جڑ دیتا جس سے تلملا کر وہ رضائی کھینچتا تو دوسری طرف سردی پہنچ جاتی۔ اسی طرح یہ کھینچا تانی جاری رہتا جب تک کوئی زخمی ہوکر میدان کارزار میں نہ گر جاتا اور صبح تک اسی طرح پڑا رہتا۔ اس تیسری جنگ عظیم اور مہا بھارت کو ختم کرنے کیلئے بسیار سوچ ووچار کے بعد عباس بھائی نے رضائی کو تہہ کر ایک کونہ میں ڈال دیا اور پہلے والا کمبل ہر ایک کے حوالے کردیا۔ اس تحریر سے کسی کے جذبات سے کھلواڑ مقصور نہیں بلکہ یہ ایک پیغام ہے ان لوگوں کے نام جو کثیر العیال فلسفہ پر یقین رکھتے ہیں کہ خدارا سردی سے مقابلہ آرائی کیلئے ایک کی بجائے دو تین رضائی خریدیں۔ 

1 تبصرہ:

Unknown کہا...

bahut hi khub mazahia mazmoon hai