سال نو کی آمد آمد ہے، ہر شخص بیم ورجا کے دوراہے پر کھڑا ہے، سال گذشتہ کے دیئے زخم ابھی تازہ ہیں، زخموں کی ٹیس ابھی ختم نہیں ہوئی ہے… ہر چہرہ افسردہ افسردہ … ہر دل غمگین غمگین … ہر آنکھیں نمدیدہ نمدیدہ… ۔ہم نے گذشتہ سال کا استقبال خوشی اور امید بھرے انداز میں کیا تھا، نئے خواہشیں کروٹ لے رہی تھیں، نئے جذبے ابھر رہے تھے، دل تمناؤں سے لبریز تھے، نگاہیں نئے بہار کا راستہ تک رہی تھیں … نیا سال آیا خوشی ومحبت کا پیغام لایا لیکن جاتے جاتے غم واندوہ کا طوفان برپا کرگیا۔ بہت سارے زخموں سے دلوں کو چھلنی کرگیا ایسے ایسے یادوں سے ہمارا دامن بھر گیا کہ اس سے کبھی چھٹکارا نہیں مل سکتا۔
ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے آخر ہم نئے سال کا استقبال کریں تو کس امید پر؟ سال نو کی خوشیاں منائے توکیوں کر؟ کیا یہ سال امید افزا ہوگا، اپنے ساتھ خوشیاں لائے گا، محبت کے نغمے گنگنائے گا، دلوں کو جوڑے گا، گلوں کی بہار لائے گا، نفرتوں کو ختم کرے گا، انسانیت کا امرت پلائے گا، عزت وعفت کی حفاظت کرے گا، بھائی چارے کو بڑھائے گا۔لیکن ہم تو انسان ہیں اور انسان ''آشا وادی'' ہوتا ہے۔ امید وخوف، بیم ورجا کے درمیان جیتا ہے ویسے بھی ناامیدی حرام ہے۔ اسی امید ورجا کا سہارا لیکر آئیے ہم اور آپ سب مل کر نئے سال کا استقبال کریں۔ نفرت وکدورت کو بھلاکر خوشی ومحبت کے ساتھ آپس میں گلے ملیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں