ڈاکٹر شاہد وصی
تعیین قدر اور تفہیم ادب کیلئے فن پارے کو انتقادی نقطۂ نظر سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر زندہ ادب میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو تخلیقی سرمایے اور فن پارے کو مسلمہ اصول کی روشنی میں جانچتے ہیں اور جہان ادب میں اس کی قدر و قیمت کی تعیین کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ تخلیق کار اور عام قاری کے درمیان رابطے کا بھی کام کرتے ہیں۔ ان کے ذمے فن پارے کے اجمال کی تفصیل، تلمیحات واستعارات کی تفسیر ، تخلیق کار کے ویژن اور مقصدیت کی تشریح بھی ہوتی ہے۔ مذکورہ پس منظر میں تنقید تخلیق کے بعد وقوع پذیر ہوتی ہے۔ لیکن تعیین قدر اور تفہیم ادب کے علاوہ تنقیدکی ایک اور شکل ہے جو ایک تخلیق کار کے اندر چھپی ہوتی ہے۔ اس کا عمل فن پارے کے وجود میں آنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے اور فن پارے کی پیشکش کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار اپنا راستہ طے کرتا رہتا ہے۔
اردو زبان میں صنف ناول نے اپنے پہلے نقش ڈپٹی نذیر احمد کی تصنیف ’’مراۃ العروس‘‘ ۱۸۶۹ء سے ۲۰۲۴ء تک تقریباً ڈیڑھ سو سال کا سفر پورا کرلیا ہے۔ اس ڈیڑھ صدی کے دوران سینکڑوں ناول لکھے گئے ، چند ایسے بھی منصہ شہود پر آئے جسے عالم گیر شہرت ملی، مگر جب ہم صنف ناول کے تنقیدی سرمایے پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو اس باب میں قدرے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابتدا سے عہد حاضر تک ارو ناولوں پر جتنی بھی تنقید کی گئی اور جس طرح کی بھی تحریریں انتقادیات ناول کے باب میں لکھی گئیں اس کے واضح طور پر دو پہلو ہیں۔ ایک ناول کے نظری و فکری مباحث اور دوسرے انفرادی مطالعے۔ پھر نظری و فکری مباحث کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) ناول نگاری کا فنی مطالعہ (۲) مختلف ناولوں کا موضوعاتی مطالعہ و تجزیہ۔ اسے اردو زبان کی بدقسمتی سے تعبیر کریں یا اس پر افسوس و ماتم کیا جائے کہ اردو میں فن ناول نگاری اور ناول پر فنی و فکری مباحث کی کچھ خاص، مستقل اور مستند کتاب تصنیف نہیں کی گئی۔ اس مضمون میں ہم نے اردو ناول تنقید کے فکری مباحث کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
اردو ناول کے فکر و فن کے حوالے سے اہم اور مستقل تصانیف میں پروفیسر سید محمد عقیل کی کتاب ’’جدید ناول کا فن‘‘ (۱۹۹۷) اور ڈاکٹر احسن فاروقی اور پروفیسر نور الحسن ہاشمی کی مشترکہ تصنیف ’’ناول کیا ہے؟‘‘ (۱۹۵۱) کو رکھا جاسکتا ہے، جو بہت حد تک فن ناول کی ضروریات کو پوری کرتی ہیں۔ ویسے تو اردو زبان میں ناول کے تعلق سے اظہار خیال اور تبصرے ناول کے آغاز سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ ابتدا میں مولوی کریم الدینؔ، شادؔ عظیم آبادی، ڈپٹی نذیرؔ احمداور مرزا ہادی رسواؔ وغیرہ کی تعارفی و مقدماتی تحریروں میں ناول کے تعلق سے تنقیدی مباحث مل جاتے ہیں، وہیں عبدالحلیم شررؔ، پریم چندؔ، سجاد حیدر یلدرمؔ اور برج نرائن چکبستؔ کے مضامین بھی ناول تنقید کے اولین نقوش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ناول کے آغاز سے لیکر تقریباً ۷۵؍ سالوں کے بڑے وقفے کے بعد علی عباس حسینیؔ پہلے ایسے ناقد کے طور پر سامنے آتے ہیں جو اردو ناول کی تنقید پر ایک جامع، مفصل اور مستقل کتاب لکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ (۱۹۴۴ء) جہاں اردو ناول نگاری کی تاریخی ارتقا سے بحث کرتی ہے، وہیں ناول نگاروں کے معائب و محاسن اور ناول کی خصوصیات و نقائص پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ اردو کی شعری تنقید میں جو مقام مولوی حسین احمد آزادؔ کی ’’آب حیات‘‘ کو حاصل ہے، اردو ناول کی تنقیدی تاریخ میں وہی مقام و مرتبہ علی عباس حسینی کی تصنیف ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ کو حاصل ہے۔ یہ یکسانیت اس اعتبار سے ہے کہ اردو کی شعری تنقید میں ’’آب حیات‘‘ نے آنے والے ناقدین کیلئے راہیں ہموار کی، بعینہ اسی طرح ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ کی روشنی ہی میں بعد کے ناول ناقدین نے اپنی اپنی راہیں نکالی ہیں۔ فکشن تنقید کی تاریخ لکھتے ہوئے پروفیسر ارتضیٰ کریم اس کتاب کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’تنقیدی اعتبار سے راقم کے نزدیک پہلی اہم کتاب علی عباس حسینی کی ’’ناول کی تاریخ وتنقید‘‘ ہے۔ اردو ناول کی پیدائش کے تقریباً پچھتر سال بعد اردو میں یہ پہلی اور باضابطہ کوشش ہے جس میں ناول کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور ان پر تنقیدی گفتگو کا آغاز کیا گیا ہے۔ آج اردو افسانہ کی عمر عنقریب سو سال کی ہونے والی ہے، لیکن اب تک اس پر ایسی کتاب نہ لکھی گئی، جب کہ آج تنقید کا معیار اور وقار بڑھ گیا ہے۔ مواد کی فراہمی بھی کل سے زیادہ آسان طریقے سے ہوسکتی ہے۔ اس صورت حال کے مد نظر علی عباس حسینی کی کوشش قابل تحسین ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں ناول کی تاریخ وتنقید کا کام ہے‘‘۔
(اردو فکشن کی تنقید، ارتضیٰ کریم۔ ص۲۰۱)
علی عباس حسینی کی یہ کتاب اردو ناول کی تنقیدی تاریخ میں پہلی کتاب ہے جس میں ناول تنقید پر کھل کر اور تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ گرچہ علی عباس حسینی نے ناول کے فنی مباحث کے ضمن میں مغربی ادب اور ناقدین کے نظریات و آرا کو زیادہ بیان کیا ہے، اور فکر و فن پر جامع گفتگو کئے بغیر اردو ناول کی تاریخ پر تفصیلی نگاہ ڈالی ہے۔
اردو ناول کی فکری و نظری تنقید کے تعلق سے پروفیسر نور الحسن ہاشمی اور ڈاکٹر احسن فاروقی کی کتاب ’’ناول کیا ہے؟‘‘ پہلی باضابطہ تصنیف نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ناول کے عناصر کے ضمن میں ناول کے اجزائے ترکیبی پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس تفصیلی گفتگو میں انہوں نے کہانی، پلاٹ، کردار سازی، ماحول بندی، مکالمہ نگاری، بیان و ادا، جذبات نگاری اور فلسفہ حیات و نقطہ نظر کو ناول کے اہم اجزائے و عناصر کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہیں اس کتاب میں ناول اور زندگی کا باہم رشتہ، ناول کی مختلف ہیئت اور اس کے متنوع اقسام، پرانا فن اور نیا تجزیے اور ناول کی فنی اہمیت اور ناول کے مستقبل پر بھی تفصیلی بحث کی ہے۔ دیباچے وہ لکھتے ہیں:
’’ناول کے فن پر اس طرح کی تصنیف اردو زبان میں شاید کوئی اور شائع نہیں ہوئی۔ علی عباس حسینی صاحب کی ناول نگاری کی تاریخ کا ایک باب ناول کے فن پر کافی روشنی ڈالتا ہے مگر یہ بیان ناکافی ے۔ اس کتاب کا مقصد تمام تر تاریخی ہے اور وہ اپنے مقصد یعنی اردو ناول کی تاریخ پیش کرنے میں ہر طرح کامیاب ہے، لیکن ہماری یہ مختصر تصنیف محض فنی نقطۂ نظر سے مرتب کی گئی ہے‘‘۔
( ناول کیا ہے؟ احسن فاروقی، نور الحسن ہاشمی، ص ۱۴ تا ۱۵ )
اسی طرح ۱۹۹۷ء میں شائع ہوئی سید محمد عقیل کی کتاب ’’جدید ناول کا فن: اردو ناول کے تناظر میں‘‘ بھی ناول تنقید کے فکری و فنی مباحث میں خاص مقام رکھتی ہے۔ اس میں انہوں نے ناول کی تشکیل میں جتنے بھی اجزائے و عناصر معاون بنتے ہیں، اسے مختلف ناولوں کو سامنے رکھ کر جانچا اور پرکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کوئی بھی فن پارہ پہلے وجود میں آتا ہے پھر اس کے اصول وضع کئے جاتےہیں۔ ناول میں بھی فن پارہ پہلے وجود میں آیا، اس کے بعد اس کے اصول و ضوابط مقرر کئے گئے۔ لیکن صنف ناول میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے کوئی اصول حتمی اور فیصلہ کن نہیں ہیں، کیونکہ ناول میں موضوع اور تکنیک کی سطح پر ہر دن نئے نئے تجربات ہورہے ہیں، ایسے میں کوئی بھی ضابطہ حتمی بن ہی نہیں سکتا۔
اپنی کتاب میں سید محمد عقیل نے جدید اردو ناول کی شروعات سجاد ظہیر کےناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ سے کی ہے۔ ان کے خیال میں ترقی پسند تحریک اور نظریے سے زندگی اور انسانوں کے مسائل کو دیکھنے کا زاویہ بدلا اور ایک ٹھوس ادبی شکل کی شروعات ہوئی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ’’لندن کی ایک رات‘‘ کے ذریعے پہلی مرتبہ نئی ناول نگاری کی ابتدا کی گئی جس میں کہانی کا فن، کہانی بیان کرنے کا طریقہ، انسانی حیات کا عمل دخل، اظہار کی نئی صورتیں، گرچہ کے سب کچھ نئے ڈھنگ اور نئے انداز سے پیش کئے گئے۔ جس نے جدید ناول کی راہیں ہموار کیں اور اصلاحی اور مثالیں زندگی سے اوپر اٹھ کر حقیقی اور عملی زندگی کی طرف فنکاروں کا رجحان بڑھا، جس کی اور واضح شکل پریم چند کے یہاں نظر آتی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ یہ ناول صرف چند مغرب زدہ لونڈوں کی روداد شرارت نہیں ہے بلکہ ملکی اور سماجی حالات کا اظہار ادبی اور دانشورانہ طریقہ سے کیا گیا ہے۔ ناول کے تعلق سے مصنف کی رائے یہ کہ دیگر اصناف ادب کی طرح ناول کا قاری مختلف قسم کا ہوتا ہے، اس کے تقاضے شاعری اور تنقید کے قاری سے جداگانہ ہوتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ناول نگاری اگرچہ دلچسپ فن ہے، مگر شاعری، تنقید اور تمام سنجیدہ ادب کے قارئین سے ناول کا قاری بہت مختلف ہوتا ہے۔ ناول کے قاری کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ناول کا قاری کسی بے حد سنجیدہ فضا اور غیر دلچسپ موضوع کو برداشت نہیں کرپاتا۔ یہ قارٰ محض ہلکی پھلکی اور دلچسپ صورتوں کا ناول سے طلبگار ہوتا ہے۔ اب اگر ناول نگار صرف اپنی دنیا میں گم ہوجاتا ہے اور ناول کے درمیان ادق فلسفہ، نکتہ یا ایہام کی تہہ در تہہ باتیں لے آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو ناول نگار کا رشتہ قاری سے کٹ جاتا ہے۔‘‘
( جدید ناول کا فن۔ سید محمد عقیل۔ ص۱۵)
مذکورہ اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ سید محمد عقیل کی نگاہ میں ناول میں ابہام اور علامتوں کی کثرت ناول کی تفہیم میں مضر ثابت ہوتی ہیں، اس سے قاری اور سامع ناول نگار کے ساتھ زیادہ نہیں چل پاتا ہے۔ اسی طرح مصنف کا خیال ہے ناول میں قصہ کو ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ کی حیثیت حاصل ہے، لیکن روایتی انداز کے قصے کی اس جدید عہد میں کوئی ضرورت باقی نہیں بچی ہے، آج کی کہانی اور قصہ زندگی کے نئے تقاضے، حقیقتوں کا ادراک اور فنی تخلیقییت کا متقاضی ہے۔ اگر قصے میں ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا جائے تو اس طرح کی تخلیق اپنی ادبی حیثیت کھو دیتے ہیں۔ آگے مصنف نے ناول میں کردار کی اہمیت اور ناول کے مقاصد کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر ناول نگار اپنے نقطۂ نظر اور فلسفۂ حیات کے اظہار کیلئے کرداروں کے ذریعہ ہی کرتا ہے۔ یہی ناول کی روایت رہی ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف تک یہی ہوتا رہا ہے۔ لیکن جدید دور کے ناول نگار نے کرداروں کو اتنی اہمیت نہیں دی کہ وہ پورے ناول پر چھا جائے ، بلکہ جدیدیوں نے سچویشن کو کرداروں کے مقابلے زیادہ اہمیت دی۔ ان کی نظر اس بات پر رہتی ہے جو پلاٹ ترتیب دیا گیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے مجروح نہ ہوسکے۔
وجودی ناول کے تعلق سے سید محمد عقیل کا نظریہ یہ ہے کہ اردو میں شعوری طور پر وجودی ناول کے تجربے نہ کے برابر کئے گئے، جہاں اس طرح کی کوشش بھی کی گئی تو اس پر سوالیہ نشان لگنے شروع ہوگئے۔ ان کے خیال میں ’آگ کا دریا‘‘، ’’اداس نسلیں‘‘ اور ’’تلاش بہاراں‘‘ میں کہیں کہیں وجودی فکر کو برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’آگ کا دریا کو اس احساس فکر کا نقش اولین کہہ سکتے ہیں جس میں وقت، تاریخ، موت اور تشکیک سب کردار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ان میں وقت اور موت خاص طور پر، تمام کرداروں اور واقعات کو گھیرے پھرتی ہے۔ موت، جو ودجودیوں کا خاص موضوع اور مرکز فکر رہی ہے‘‘۔
( جدید ناول کا فن۔ سید محمد عقیل۔ ص۹۲)
سید محمد عقیل پہلے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے آگ کا دریا، تلاش بہاراں جیسے ناولوں میں وجودیت کو اس انداز میں واضح کیا ہے، ان کے پیش روؤں کے یہاں نہیں اس طرح کی تشریح نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے عقلیت اور وجودیت، اظہاریت اور حقیقت نگاری وغیرہ مباحث پر طویل کارآمد گفتگو کی ہے۔
ناول میں موضوع کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اردو میں اسے مقصد، خیال، تھیم جیسے مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ افسانہ میں جہاں وحدت تاثر لازمی اور بنیادی عنصر ہے، اس کے برعکس ناول کی دنیا الگ ہے۔ ناول کیلئے ایک ہی موضوع کا ہونا ضروری نہیں۔ پھر یہ کہ ناول نگار کیلئے اس کی لازمیت نہیں ہے کہ وہ موضوع میں جس مسئلے کی نشاندہی کررہا ہے، اس کا حل بھی پیش کرے، بلکہ اس کا کام صرف موضوع کی تمام کیفیات اور اس کے مکمل جزئیات کو کامیابی اور چابکدستی سے بیان کرنا ہی ہے۔ اردو ناول کی نظری و فکری تنقید میں اس طرح کے مباحث سید وقار عظیم نے اپنی کتاب ’’داستان سے افسانے تک‘‘ (۱۹۶۰ء) میں بیان کئے ہیں۔ وہیں سید محمد عقیل نے بھی ’’جدید ناول کا فن‘‘ میں اس پر کافی بحث کی ہے۔ ان کے مطابق ناول کا موضوع معاصر زندگی کے تابع ہوتا ہے اور ایک حساس ناول نگار عہد حاضر کے بڑے مسائل اور معاصر زندگی کی اہم پیچیدگی کو موضوع بناتا ہے۔ چنانچہ جن ناول نگاروں نے اپنے زمانے کے بڑے مسئلے کی شناخت کی، اس کے ناول عظیم کہلائے۔
موضوع کے ساتھ ساتھ ناول میں نقطہ نظر بھی ایک اہم عنصر ہے۔ ناول نگار زندگی اور معاشرے کے تعلق سے اپنی جو رائے اور سوچ رکھتا ہے وہی نقطہ نظر کہلاتی ہے۔ کچھ ناقدین اسے فلسفہ حیات کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ناول میں تخلیق کار کا نقطہ نظر پوری طرح حاوی رہتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بحث یہ ہے کہ ناول میں نقطہ نظر کو کس انداز میں پیش کرنا چاہئے اور اسے کس حد تک رکھا جانا چاہئے۔ اگر ناول کے تمام کردار ناول نگار کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرنے لگے اور ناول کا ہر ہر سطر اس میں کھلم کھلا ناول نگار کے فلسفہ حیات کی ترجمان بن جائے تو اس طرح کی پیشکش سے قاری بہت جلد اکتائے جائے گا اور کہانی سے تجسس ختم ہوجائے گی۔ ڈاکٹر اسلم آزاد نے اپنی کتاب ’’اردو ناول آزادی کے بعد‘‘ کے اندر نقطۂ نظر کے حوالے سے بہت اچھی بحث کی ہے۔ وہ فلسفہ حیات کے اظہار کیلئے خاص فنی سلیقے کی بات کرتے ہیں اور خطیبانہ و ناصحانہ طرز بیان کو ناول کے لئے مضر تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح احسن فاروقی نے بھی نقطہ نظر کے کھلم کھلا اظہار کو معیوب گردانا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’اردو ناول کی تنقیدی تاریخ‘‘ میں اولین ناولوں میں برتے گئے اس طرز اظہار کو ابتدائی کاوشوں کے زمرے رکھا ہے۔
اردو ناول کے ناقدین نے ناولوں کے بہت ساری قسمیں شمار کرائی ہیں۔ کرداری، واقعاتی، نفسیاتی، سماجی، رومانی، جاسوسی اور تاریخی وغیرہ وغیرہ۔ پاکستانی ناقد مجید بیدار نے اپنی کتاب ’’ناول اور متعلقات ناول‘‘ میں ناول کی ۲۱؍ قسمیں بیان کی ہیں۔ اس طرح کی تقسیم بندی ظاہری اور سطحی یا موضوعاتی قبیل کی ہیں، ناول تو بس ناول ہوتا ہے۔ ایک اچھا اور عظیم ناول اپنے موضوعات و نقطہ نظر کے اعتبار سے ایک سے زائد قسموں میں داخل ہوسکتا ہے۔ ان تمام میں البتہ ایک قسم ایسی ہے جو اپنی جداگانہ نظم اور الگ واضح شناخت رکھتی ہے، جسے تاریخی ناول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دراصل تاریخی ناول اس ناول کو کہا جاتا ہے جس میں ماضی میں بیت چکے کسی عہد یا تاریخ کے کسی خاص کردار کو کہانی کے پس منظر کے طور پر پیش جاتا ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف گزر چکے زمانے یا کسی خاص تاریخی کردار و واقعات پر خیال آفرینی اسے تاریخی ناول کے زمرے میں نہیں رکھتی، ورنہ تمام روزنامے اور ’’آگ کا دریا‘‘، ’’سنگم‘‘، ’’اداس نسلیں‘‘، ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ اور ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ وغیرہ لا تعداد ناول تاریخی ناول گردانے جانے لگیں گے۔ مذکورہ ناولوں کا موضوع وسیع اور کافی پیچیدہ ہے۔ اس کے برعکس تاریخی ناولوں اپنے اندر اس قدر پیچیدگی اور حد درجہ وسعت نہیں رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے تاریخی ناول کے حوالے سے گفتگو علی عباس حسینی کے یہاں نظر آتی ہے، البتہ انہوں نے عبد الحلیم شررؔ کے بیان میں صرف چند جملے ہی لکھے ہیں، لیکن اس سے تاریخی ناولوں کے تعلق سے ایک اچھا بیانیہ سامنے آگیا ہے۔ تاریخی ناولوں کے تعلق سے ان کا بیان ان کے فنی شعور اور تنقیدی بصیرت کا مظہر ہے۔ تاریخی ناولوں کے تعلق سے احسن فاروقیؔ نے بھی اپنی کتاب میں بحث کی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ممتاز منگلوری کی کتاب ’’شرر کے تاریخی ناول‘‘ (۱۹۷۸ء) اور پروفیسر علی احمد فاطمی کی کتاب ’’عبد الحلیم شرر بہ حیثیت ناول نگار‘‘ (۱۹۸۶ء) اور ’’تاریخی ناول : فن اور اصول‘‘ (۱۹۸۰ء) اپنے موضوع کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔ ممتاز منگلوری اور علی احمد فاطمی دونوں نے تاریخی ناول کی بابت نظری تنقید کے حوالے سے کافی اہم کام کیا ہے۔ علی احمد فاطمی کے نزدیک تاریخی ناول نگاری کا کام انتہائی مشکل ہے۔ ان کے خیال میں اچھا ناول وہی ہوتا ہے جس میں کمال ہنرمندی کے ساتھ تاریخی ماحول کی پیش کش کی جائے اور جس بھی دور کا منظر بیان کیا جائے ، انداز بیان ایسا ہو کہ وہ دور نگاہوں کے سامنے آجائے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’جو لوگ تاریخی ناولوں سے متعلق ایسے نتائج نکالتے ہیں وہ اپنے بیان میں ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرتے۔ عام طور پر ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ تاریخ محض گڑے مردے اکھاڑتی ہے اور ناول خیالوں کی ایک تصویر ہوتا ہے۔ تاریخ اور ناول دونوں کے ہی سلسلے میں یہ بات اب غلط ثابت ہوچکی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تاریخی ناول وہی سب سے اچھا وکامیاب سمجھا جائے گا جو خوبصورتی کے ساتھ تاریخی ماحول کو پیش کرے۔ وہ جس دور کی منظر کشی کرے وہ آنکھوں میں اتر آئے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے وہ پورے تاریخی واقعات کو پوری سچائی کے ساتھ پیش کرے پھر وہ تاریخ ہوجائے گا۔ تاریخی ماحول کو پیش کرنے کیلئے اکثر وبیشتر تخیل سے ہی کام لینا پڑتا ہے۔‘‘
( تاریخی ناول فن اور اصول، علی احمد فاطمی، ص۴۴۔۴۵)
تھیم، فلسفہ حیات اور تاریخی ناول کے فکری ابعاد کے حوالے سے جب اردو ناول تنقید کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس باب میں ناول کی نظری تنقید کا سرمایہ کافی حد تک مختصر اور کم نظر آتا ہے۔ البتہ ناول کے موضوعاتی مطالعہ کے ضمن میں اردو ناول کی تنقیدی تاریخ میں اہمیت و معنویت کی حامل بہت ساری تصانیف شائع ہوئی ہیں۔
مذکورہ کتابوں کے علاوہ بھی ناول تنقید کے مباحث ان کتابوں میں جا بہ جا بکھرے پڑے ہیں، جس میں ناول کو کسی خاص موضوع کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اسی طرح ناول نگار کے انفرادی مطالعہ کی حیثیت سے لکھی گئی تصانیف میں بھی ضمناً فکری مباحث آگئے ہیں۔ سید علی حیدر، عظیم الشان صدیقی، صغیر افراہیم، ممتاز احمد خاں، شہاب ظفر اعظمی، اسلوب احمد انصاری، قمر رئیس، نعیم انیس، رحمان عباس، مشرف عالم ذوقی، ابو بکر عباد، ارتضیٰ کریم اور انور پاشا وغیرہ کی کتابوں میں ناول کے نظری و فکری مباحث آئے ہیں، لیکن ان ناقدین کے پیش نظر چونکہ ناول کا موضوعاتی مطالعہ یا کسی خاص ناول نگار کا انفرادی مطالعہ پیش نظر تھا، اس لیے نظری مباحث زیادہ تفصیل سے نہیں شامل نہیں ہوپائے۔
(یہ مضمون سہ ماہی ’’فکر و تحریر‘‘ اکتوبر تا دسمبر 2024 کے شمارے میں شائع ہوا ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں