جمعہ، 4 جنوری، 2013

.... سائیکل کھوگئی


اس جہان ہست وبود میں دریافت ونایافت کا سلسلہ لگا رہتا ہے۔کوئی کھوتا ہے تو کوئی پاتا ہے۔ کسی کے نصیبے کا آفتاب بادلوں کو کاٹ کر اپنی کرنیں بکھیرتا ہے تو کسی کی قسمت پر بدبختی کا ناگن اپنا پھن پھیلا دیتی ہے۔ روز ازل سے لیکر آج تک اس جہان بے ثبات میں جس کسی کا بھی وجود ہوا اس نے کچھ پایا تو کچھ کھویا۔ ہمارے عزیز شاہد ذبیح جو میرے ہم نام بھی ہیں نے بھی کھویا ہے ۔ اور وہ بھی ایسی چیز جو انہیں بیش از جان ودل عزیز تھی۔ اس کے آرام کے لئے، اس کی زیب وزینت کے لئے خدا معلوم انہوں نے کتنا خیال رکھا، اس کے پیچھے انہوں نے سینکڑوں روپے خرچ کئے۔ خود پیادہ پا سفر کیا لیکن اسے تکلیف نہیں دی، خود ناشتہ نہیں کیا لیکن اس کی زندگی کیلئے درکار چیزیں مہیا کرائیں۔
آپ سوچ رہے ہونگے آخر وہ چیز ہے کیا؟ تو چلئے ہم اس سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ وہ ان کی سبک خرام، مستانہ چال والی سائیکل ہے۔ ان کی سائیکل کیا گم ہوگئی گویا ان کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا، راتوں کی نیند، دن کا چین سب لٹ گیا۔ چہرے کی رونق ماند پرگئی، ہونٹوں کی مسکراہٹ عنقا ہوگئی۔ آفس والوں نے تو حد کردی۔ ان کے جذبات واحساسات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ان کی محبوب سائیکل پر ایسے ایسے جملے کسے اور ایسی ایسی فقرے بازیاں کیں کہ اللہ کی پناہ ان کا دل چھلنی چھلنی ہوگیا۔ ان کے دل کے اتنے ٹکڑے ہوگئے کہ کوئی کہیں گرا کوئی کہیں۔ لیکن انہوں نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک ہے جان میں جان ہم اس کی یاد کو سرمایہ حیات بنائے رکھیں گے اور خلوت وجلوت میں اس کی یاد کا دیا جلائیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں: