بدھ، 1 جنوری، 2025

تنقید کی زبان

ڈاکٹر شاہد وصی 

تخلیق اور تنقید کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادب میں جتنی اہمیت ایک تخلیق کار کی ہے، اتنی ہی کسی ناقد کی بھی ہے۔ تنقید کا بنیادی مقصد تفہیم متن اور فن پارے کی تعیین قدر ہے۔ تنقید نگار قاری اور فن پارے کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ وہ فن پارے کا ادب میں معیار متعین کرتا ہے، وہیں اس کے محاسن و معائب اور قدر و قیمت کا تعین بھی کرتا ہے۔ کلیم الدین کی نگاہ میں تنقید کی ادب میں وہی حیثیت ہے جو کسی باغ اور گلستان میں مالی اور باغباں کی ہے۔ جس طرح باغباں قینچی کی مدد سے مرجھائے پتے اور خشک ہوچکی شاخوں کو کاٹ کر اسے خوشنما اور جاذب نظر بناتا ہے، بعینہ یہی کام ایک تنقید نگار کے ذریعہ بھی انجام پاتا ہے۔ تنقید نگار کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ادب میں کسی فن پارے کیلئے اصول وضع کرے اور اس کے ضابطے بنائے تاکہ ایک تخلیق کار ان اصول و ضوابط کی روشنی میں اپنی تخلیقات کو ادبی منزل تک پہنچا سکے۔ دیگر بہت سارے اصناف سخن کی طرح تنقید کا فن بھی اردو میں مغرب کے زیر اثر پروان چڑھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مغربی ادبیات کی آمد سے پہلے مشرق میں اردو ادبا اور دانشوران کے اندر کوئی تنقیدی شعور نہیں تھا۔ وجہی سے لیکر عہد حاضر تک کے جتنے بھی فنکار و تخلیق کار گزرے ہیں سبھوں کے اندر میں ایک اچھا تنقیدی شعور موجود تھا، کیونکہ اس کے بغیر کوئی اچھا فن پارہ وجود میں ہی نہیں آسکتا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان میں تنقید کے باضابطہ اصول مغربی لٹریچروں کی مدد سے ہی بنائے گئے۔ آل احمد سرور اپنے ایک مضمون میں اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 


’’مغرب کے اثر سے اردو میں کئی خوشگوار اضافے ہوئے۔ ان میں سب سے اہم فن تنقید ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اثر سے پہلے اردو ادب میں کوئی تنقیدی شعور نہیں رکھتا تھا یا شعر و ادب کے متعلق گفتگو، شاعروں پر تبصرہ اور زبان و بیان کے محاسن پر بحث نہیں ہوتی تھی۔ بڑے تخلیقی کارنامے بغیر ایک اچھے تنقیدی شعور کے وجود میں نہیں آسکتے۔ ‘‘
( تنقید کیا ہے؟ پروفیسر آل احمد سرور۔ ص۱۴۲)

یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کارنامہ یا کوئی بھی فن پارہ اسی وقت شاہکار اور ادبی کہلاتا ہے جب اس کے تخلیقی عمل میں تنقیدی شعور اور فنی بصیرت کام کررہی ہوتی ہے۔ اردو میں باضابطہ تنقید کی شروعات خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے ہوتی ہے، لیکن تنقیدی خیالات و افکار ہمیں اس سے پہلے بھی ہر فنکار و تخلیق کار کے یہاں جا بہ جا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حالیؔ سے پہلے بھی وجہیؔ سے لیکر میرؔ و غالبؔ تک بے شمار شہ پارے تخلیق کئے گئے، اگر ان تمام کے تخلیقی عمل کے دوران تنقیدی شعور کارفرما نہ ہوا ہوتا تو یہ فن پارے شاہکار نہیں بن سکتے تھے۔ پروفیسر احتشام حسین کا خیال ہے کہ اردو ادب کی پیدائش ہی اس وقت ہوئی جب پہلے سے بہت ساری زبانوں کے ادب موجود تھے اور اچھے یا برے تنقیدی معیارات وجود میں آچکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ہر ادیب کے پاس اعلی یا ادنی تنقید کا کوئی نہ کوئی معیار ضرور ہوتا ہے جو تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو اچھا تخلیقی عمل بھی وجود میں نہ آئے۔ گویا اچھی تخلیقی قوت، اچھی تنقیدی قوت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ‘‘

(ادبی تنقید کے مسائل: مشمولہ روایت اور بغاوت۔ سید احتشام حسین، ص۔۱۴) 

تخلیق کار ہو یا تنقید نگار وہ اپنے مافی الضمیر اور اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کیلئے جس آلے اور ذریعے کا انتخاب کرتا ہے وہ زبان ہے جسے دوسرے لفظوں میںہم اسلوب سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ انسان کو فطرت کی جانب سے جو بہت ساری صلاحیتیں اور خصوصیتیں ودیعت کی گئی ہیں، ان میں سب سے بڑی صلاحیت نطق یعنی بولنے کی صلاحیت ہے۔ زبان اسی صلاحیت نطق کا دوسرا نام ہے اور نثر اسی خاصہ نطق کی مربوط، منظم اور ترقی یافتہ شکل ہے۔ روز اول سے ہی انسان اپنے احساسات و خیالات کی تبلیغ و ترسیل، اپنے مافی الضمیر کے اظہار اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے زبان ہی کو ذریعہ بناتا چلا آرہا ہے۔ زبان کی مختلف مشاہیر ادب نے مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ محی الدین قادری زورؔ نے الفاظ کے اعتبار سے اسے چار قسموں میں بانٹا ہے۔ : مرجز :مقفی، :مسجع، :عاری۔ اسی طرح معنی کے اعتبار سے انہوں نے زبان کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ :سلیس سادہ، :سلیس رنگین، :دقیق سادہ،: دقیق رنگین۔ کہیں کہیں اسلوب کو زبان کے مترادف کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں قدرے اختلاف ہے۔ زبان اپنے اندر عمومی مفہوم رکھے ہوا ہے، وہیں اسلوب ایک خاص معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 

لغوی اعتبار سے اسلوب کو طرز، اسٹائل کہتے ہیں۔ اصلاح میں اسلوب کسی فن کار کے انفرادی طرز اظہار اور انداز بیان کا نام ہے۔ یہ انفرادی طرز بیان اس فن کار کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ اسلوب کی تشکیل میں بہت سارے عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اوائل عمر میں کسی ادیب کا اسلوب کچھ ہوتا ہے اور مشق و تمرین اور مشاہدات و تجربات کے نتیجے میں کچھ اور ہوجاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسلوب انداز بیان ہے جس میں انسان اور فن کار کی شخصیت جھلکتی ہے۔ اسے پڑھنے والا، اسلوب پڑھتے ہی فنکار کو پہچان لیتا ہے۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اردو کے نثری اسالیب میں مختلف مشاہرین ادب کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اسلوب کو دس خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس اسلوب کے نمائندہ ادیبوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ 

’’ سادہ اسلوب: --نمائندہ : سرسید، نذیر احمد، حالی، پریم چند، میر امن، عبد الحق۔

مرصع اسلوب: --نمائندہ : ملا وجہی، عطا حسین تحسین، رجب علی بیگ سرور

شگفتہ اسلوب: --نمائندہ : حسن نظامی، نیاز فتحپوری، مہدی افادی، محمد حسین آزاد، کرشن چندر، غالب 

طنزیہ اسلوب: --نمائندہ : غالب، سرشر، رشید احمد صدیقی، پطرس، کرشن ، عصمت، فرحت اللہ بیگ

پرشکوہ اسلوب: -- نمائندہ : شبلی، ابو الکلام آزاد، محمد حسین آزاد، شرر، قاضی عبد الستار، شبلی ، رسوا

بیانیہ اسلوب: --نمائندہ :  سرسید، شبلی، رسوا، سرشار، نیاز، ابو الکلام آزاد، حسین آزاد، عبد الحق، حیات اللہ

ہیجانی اسلوب: -- نمائندہ : سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، عزیز احمد

مخلوط اسلوب: -- نمائندہ : عبد الرحمن بجنوری، سجاد انصاری، قاضی عبد الستار، غالب، سرسید، ابو الکلام آزاد، انتظار حسین، محمد حسین آزاد، راجندر سنگھ بیدی، قر العین حیدر وغیرہ

محاوراتی اسلوب: -- نمائندہ : میر امن دہلوی، عصمت چغتائی، راشد الخیری، نذیر احمد وغیرہ

رومانوی اسلوب: -- نمائندہ : کرشن چندر، نیاز فتحپوری، مہدی افادی، عزیز احمد، قاضی عبد الغفار وغیرہ۔ ‘‘

( اردو کے نثری اسالیب، شہاب ظفر اعظمی، ص۔۲۶۔۲۷) 

زبان و اسلوب کے مذکورہ بالا اقسام کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہر تخلیق کار و فنکار اپنی تخلیقی اظہار کیلئے کسی نہ کسی ایک قسم کا سہارا لیتا ہے۔ بسا اوقات وہ اپنے ادبی اور تخلیقی اظہار کیلئے اس میں کئی طرح کے تصرفات بھی کرتا ہے۔ کبھی وہ تصرف جدت وندرت پیدا کرتی ہے اور کبھی صنف اس تصرف کا متقاضی ومتحمل نہیں ہوتی ہے۔ ادب میں زبان کے تخلیقی استعمال کی بڑی اہمیت ہے۔ زبان کے منفرد، انوکھے اور مخصوص استعمال سے کسی ادیب کو زبان کی یہ تخلیقیت حاصل ہوتی ہے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ زبان کے استعمال سے ہی اسلوب کی تشکیل ہوتی ہے۔ چونکہ کوئی بھی ادیب یا تخلیق کار فن پارے کی تعمیر میں زبان کا ہی استعمال کرتا ہے، اس لیے ہر ادبی شہ پارے میں اور ہر ادیب کے یہاں اسلوب کا پایا جانا لازمی ہے۔ اسی طرح زبان کی نوعیت ہر فن پارے اور ادیب کے یہاں بدلتی رہتی ہے، اس میں یکسانیت نہیں رہتی اور زبان کے ساتھ اسلوب بھی بدلتا رہتا ہے۔ داستان ہی کو لے لیں۔ فسانہ عجائب کی زبان مقفی، مرصع اور مسجع ہے۔ رانی کیتکی کی کہانی کی زبان سادہ اور عاری ہے، اسی طرح باغ و بہار میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بھی سادہ اور سلیس ہے۔ بیسویں صدی کے اندر عموماً اکثر اصناف میں جوزبان استعمال کی گئی وہ سادہ اور سلیس ہی تھی۔ سبھوں کی یہی کوشش رہی کہ سادگی اور سلاست کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کو ادا کردیا جائے۔ 

تنقید بھی مانند جملہ فنون کے ایک فن ہے۔ تنقید کاریگری اور صناعی کا کام ہے۔ فن تو ہر طرح کے ہوتے ہیں، بعض مشکل تو بعض آسان و سہل، اس میں تنقید ایک مشکل ترین فن ہے۔ ہر فنون کی طرح تنقید کے بھی کچھ اصول و ضوابط اور اغراض و مقاصد ہیں۔ ہر کس و ناکس اس کے فرائض کما حقہ ادا نہیں کرسکتا۔ ایک نقاد کیلئے ضروری ہے کہ وہ فن تنقید کے ہر پہلو سے آگاہ ہو، اسکے اندر لطیف اور حساس قوت حاسہ کا ملکہ ہو، اس کی نگاہ وسیع ہو اور وہ اپنی زبان کے ادبی کارناموں سے بھی پوری واقفیت رکھتا ہو۔ اسی کے ساتھ وہ دوسری زبانوں کے شہ پارے سے آگہی رکھتا ہو۔ وہ جو زبان استعمال کرے، اس کے اندر سادگی، متانت اور قطعیت کا عنصر غالب ہو۔ تنقید کی زبان میں پیچیدہ بیانی، تعویق لفظی، دقیق زبان، صنائع و بدائع کا استعمال اور مصنوعی پن سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تنقید میں عبارت آرائی اور رنگینی سے نفس مضمون تک رسائی نہیں ہوپاتی ہے۔ تنقید کیلئے غیر جانب داری انتہائی ضروری ہے۔ ایک ناقد کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ معروف ادیب و ناقد پروفیسر کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے اندر تنقید کی زبان کی تعین پر کافی زور دیا ہے۔ وہ تنقید کی زبان کو غزل کی زبان بنا دینے کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کی عبارت آرائی اور رنگین زبان چند وقفے کیلئے قاری کو تو چونکا سکتی ہے، لیکن تنقید کا جو فرض منصبی ہے ، اس میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ محمد حسین آزادؔ کی مشہور کتاب ’’آب حیات‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

’’ان جملوں کا مقصد سبحان اللہ ہے۔ ہر سمجھ والا جانتا ہے کہ اس عبارت میں مغز کم ہے اور اس کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ سیدھے سادھے لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ چند صاف اور معمولی باتوں کو حسین لفظوں اور چمکتے ہوئے نقوش سے آراستہ کیا گیا ہے۔ چمک تو بڑھ گئی ہے، لیکن ان حسین لفظوں اور چمکیلے نقوش نے معانی کو پش پشت ڈال دیا ہے۔ الفاظ اور نقوش اپنی رنگینی اور چمک کے ساتھ عام، مبہم اور غیر متعین بھی ہیں۔ عبارت آرائی کی جستجو میں مقصد فراموش ہوجاتا ہے۔ اور اس قسم کی عبارت سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا۔ تنقید کی زبان سیدھی سادی ہوتی ہے۔ صاف اور معین ہوتی ہے۔ تنقید میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ زبان کی سلاست اور روانی، رنگینی اور جلا خیالات پر پردہ نہ ڈال دے۔ ‘‘

( اردو تنقید پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، ص۵۰) 

 کلیم الدین احمد تنقید کیلئے ایسی زبان کے سخت خلاف ہیں جس کی وجہ سے موضوع اور مقصد پس پشت چلا جائے۔ وہ زبان میں سادگی اور سلاست کے قائل ہیں۔ کلیم الدین احمد ہی کی طرح اکثر نقاد تنقیدی زبان کیلئے سادگی کے قائل ہیں۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ تنقید کی زبان کا استعمال اگر صرف معنی مقصود تک رسائی کے لیے ہی ہو تو پھر ایسی زبان کاروباری ادارے کے ہی شایان شان ہے۔ تنقید کسی کاروباری ادارے کا نمائندگی نہیں کرتی بلکہ یہ فنون لطیفہ کی ایک شاخ ہے جو اپنے اندر ادبیت اور تخلیقی شان کا متقاضی ہے۔ ورنہ سپاٹ پن اور بدمزگی ذوق سلیم کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ 

تنقید کا بنیادی کام فن پارے کی تعیین قدر اور استخراج نتائج ہے۔ جب کوئی ناقد کسی فن پارے کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور اس فن پارے کے معائب و محاسن کی نشاندہی کرتا تو اسے سائنسی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ فن پارے کے تمام گوشوں کی چھان پھٹک کرکے منطقی دلائل، معروضی انداز، تجزیاتی شواہد، وسعت مطالعہ، ماقبل کے تجربات اور زور بیان کے توسط سے وہ نتیجہ تک پہنچتا ہے۔ اسی لئے ادب میں اگر کوئی صنف سائنس سے قریب تر ہے تو وہ تنقید ہی ہے۔ سائنس سے قریب تر ہونے کے باوجود ان دونوں کی زبان میں واضح فرق ہے۔ سائنس میں ادبی شان نہیںہوتی اور نہ ہی اس میں زبان مقصود بالذات ہوتی ہے، اس کے برعکس تنقید میں زبان کی خامی فوراً قابل گرفت ہوجاتی ہے۔ جس طرح سائنس میں کسی چیز کا تجربہ کرنے کیلئے تجربہ گاہ اور مختلف آلات و اوزار کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح تنقید میں بھی استخراج نتائج کیلئے منطقی، استدلالی اور معروضی انداز، حوالے، تجزیہ وتشریح اور زور بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی تنقیدی نگارشات کے توسط سے کوئی ناقد مصنف کے خیالات و جذبات اور اس کے اندرونی کائنات میں داخل ہوکر نتیجہ اخذ کرنے اور جوہر مقصود پانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ تنقید کی زبان میں گہرائی، تہہ داری، سنجیدگی اور زیریں لہروں کی ترنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ 

تنقید کی زبان سیدھی سادی، سلیس اور رواں ہونی چاہئے جو نفس مطلب تک پہنچا دے۔ سارے ناقدین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن تنقیدی اظہاریے کا مقصود صرف مفہوم تک رسائی ہی تو پھر اس میں اور صحافتی زبان میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر اس کی زبان میں عبارت آرائی اور رنگینی اس قدر ہو کہ وہی مقصود بالذات نظر آئے، تو پھر تنقید کا مقصد اصلی ہی فوت ہوجائے گا۔ تنقید کی نثر میں حسن اور چاشنی ضروری ہے۔ کیونکہ تنقید ادب کی ایک توانا شاخ ہے، لہٰذا اس کی نثر میں بھی توانائی ضروری ہے۔ رشید احمد صدیقی، فراق گورکھپوری، عبد الرحمن بجنوری، نیاز فتح پوری، آل احمد سرور، کلیم الدین احمد اور اختر اورینوی وغیرہ کی تنقیدی زبان میں سادگی کے ساتھ نثری حسن بھی اس قدر در آیا کہ قاری اکثر ان تحریروں کی چاشنی میں کھو سا جاتا ہے۔ احتشام حسین کی زبان بھی سادہ اور دلکش ہے، لیکن ان کے انداز بیان میں اکثر فلسفیانہ رنگ غالب آجا تاہے۔ 

تنقید کی زبان کا سب سے اہم پہلو اس کا تعمیری ہونا ہے۔ تعمیری زبان مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے حل کی تجاویز بھی فراہم کرتی ہے۔ اس قسم کی زبان قاری کے ساتھ ساتھ مصنف کو بھی حوصلہ دیتی ہے اور اسے اپنی خامیوں کو قبول کرنے اور اسے بہتر بنانے کی ترغیب دیتی ہے۔ تنقید کرتے وقت الفاظ کا انتخاب انتہائی محتاط انداز میں ہونا چاہیے۔ غیر مناسب، توہین آمیز، یا غیر مہذب الفاظ مصنف و قاری کی دل آزاری کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، موزوں اور مہذب الفاظ کسی بھی سخت بات کو نرم اور قابل قبول بنا دیتے ہیں۔ ادبی تنقید کا بنیادی مقصد کسی ادبی تخلیق کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر کرنا ہے۔ اس کے لیے تنقید کی زبان علمی، متوازن، اور معروضی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی نقاد محض اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر تنقید کرے، تو اس کی رائے غیر معتبر تصور کی جائے گی۔ جب تنقید ذاتی جذبات، عناد، یا تعصبات پر مبنی ہو، تو یہ اپنی معروضیت کھو دیتی ہے۔ ایسی زبان تنقید کو بے مقصد اور غیر موثر بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات نقاد تنقید کرتے وقت مبالغہ آرائی کا سہارا لیتا ہے، جو کہ حقیقت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ مبالغہ آمیز زبان تنقید کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔ ادبی تنقید ادبی تخلیقات کا تجزیہ، ان کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنے کا فن ہے۔ یہ نہ صرف تخلیق کی گہرائیوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ ادیب، قاری، اور معاشرے کے درمیان ایک فکری مکالمے کا پل بھی قائم کرتی ہے۔ ادبی تنقید کے لیے ایک خاص اسلوب اور طریقہ کار ضروری ہے، جو انصاف، معروضیت، اور شائستگی کے اصولوں پر مبنی ہو۔ 

(یہ مضمون ’’اردو دنیا‘‘ جنوری 2025 میں شائع ہوا ہے) 

کوئی تبصرے نہیں: