جمعہ، 25 جنوری، 2013

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص

بے پایاں رحمتوں، لامحدود شفقتوں، بے کراں عنایتوں، بے کنار محبتوں اور بے انتہا برکتوں والا عظیم دن۔ افق تا افق پھیلی دائمی روشنیوں کی تابندہ علامت، زندگی کے اجلے قرینوں، شفاف جذبوں اور مصفیٰ سوچوں کا امین دن جو حیات انسانی کے ہر گوشے میں نور افشاں ہے۔ جو انفس و آفاق پر ٹھنڈی چھاؤں کے سکوں بخش خیمے کی طرح تنا ہوا ہے۔ وہ ایک دن جو زمانوں پر محیط ہے۔ درود و سلام کی محفلیں، نعت کے زمزمے ، معطر تذکروں سے مشکبو اجتماعات، پھیلے ہوئے دامن، دعاؤں بھرے ہاتھ، کپکپاتے ہونٹ، اشک بار آنکھیں، جگمگاتی پیشانیاں، تمتماتے چہرے۔
لیکن عشق و مستی کے ان مظاہروں کے باوجود زندگی بدل کیوں نہیں رہی؟ ہمارے دلوں میں وہ گداز کیوں پیدا نہیں ہورہا جو دعاؤں کو مستجاب اور رحمتوں کو بے حساب کردیتا ہے؟ ہمارا تن بدن اتنا ویران کیوں ہوگیا ہے؟ سینے میں کوئی چراغ آرزو ہے نہ دل میں کوئی شرار جستجو؟ ہماری طلب کا شرر اتنا بے ثمر کیوں ہوگیا ہے؟ ان منور تعلیمات کا عکس جمیل ہمارے کردار و عمل کے کسی پہلو میں اجاگر کیوں نہیں ہورہا جن تعلیمات نے صحرائے عرب کے شتربانوں کو زمانے بھر کا پیشوا بنادیا تھا؟ ہم کہ گالیاں کھا کر دعائیں دینے والے کا اسم مبارک سنتے ہی انگوٹھے چوم لیتے ہیں، باہمی نفرتوں اور کدورتوں کی آگ میں کیوں بھسم ہورہے ہیں؟ امیری میں فقیری کرنے والے کا غلام ہوکر بھی ہماری ہر سانس آسائشوں اور آرائشوں سے کیوں بندھی ہے؟ ہم جو میلاد النبی کے نام پر تقریبات سجاتے اور اپنا جوہر خطابت دکھانے کے لئے حرف و بیاں کی طرح داریوں اور لہجے کی طراریوں کو نکتہ کمال پر لے جاتے ہیں، اپنی نجی زندگیوں میں اتنے چھوٹے کیوں ہوجاتے ہیں کہ اقتدار کی راہ داریوں میں حشرات الارض کی طرح رینگنے کو بھی سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں؟ میلاد کے جلسوں میں ہماری شعلہ بیانی چند لمحوں کے اندر اندر صاحبان اختیار و اقتدار کی قصیدہ خوانی میں کیسے ڈھل جاتی ہے؟ شہنشاہ کون و مکاں کی جوتیوں کی خاک کو اپنی آنکھ کا سرمہ بنانے والے، چھوٹی چھوٹی لذتوں اور ذرا ذرا سی رعایتوں کے لئے اپنے آپ کو جنس بے مایہ کیوں بنا لیتے ہیں؟ عشق مصطفی کو اپنا اعزاز و امتیاز بنانے والے، بدلتے موسموں کے حضور عجز و انکسار کی تصویر بن جانا کیسے گوارا کر لیتے ہیں؟ ان کی آنکھیں سیر اور ان کے دل غنی کیوں نہیں ہوتے؟ دونوں جہانوں کے لئے رحمت بن کر آنے والے نبی سے عشق و محبت کا اظہار کرنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کی گردنیں کیوں کاٹ رہے ہیں؟ امن ، محبت، اخوت اور ہمدردی کا درس دینے والے محمد عربی سے رشتہ جوڑنے کے باوجود ہماری بستیاں قتل گاہیں کیوں بنی ہوئی ہیں؟ جوئے خوں تھمنے میں کیوں نہیں آرہی؟ درود و نعت کی سوغاتوں، درد سے لبریز مناجاتوں اور رنگ و نور کی برساتوں کے باوجود سورج سوا نیزے پہ کیوں کھڑا ہے؟“کیوں؟ آخر کیوں؟ ؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں: