جب ہم سماج میں رونما ہونے والی متنوع شرانگیزیوں اور قسم قسم کی فتنہ سامانیوں کو دیکھتے ہیں اور فساد و بگاڑ کی مختلف شکلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر ان جرائم و واردات کو سماج، نفسیات اور معاش کے مختلف پیمانے پر پرکھتے ہیں تو ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ ہر فساد کے بعد 'جو ’’ہوا سو ہوا‘‘ کا فارمولہ قطعی درست اور کارگر نہیں ہے۔ بلکہ بعض واقعات میں اس فارمولے کے بدترین اور بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ ظلم وستم اور جبر و زیادتی اگر پدرم سلطان بود والی نفسیات کی پیداوار ہے اور اس کے پس پشت اگر کلیم عاجز کی زبانی ’’وہ صنم بگڑ کے مجھ سے مرا کیا بگاڑ لے گا‘‘ والی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے ، تو ان معاملات جنگ وجدل میں مصالحت کے دوران ’’جو ہوا سو ہوا‘‘والے فارمولے کو بروکار لانے سے ہمیشہ ظالموں اور زبردستوں کو یک گونہ ایڈوانٹیج ہی ملتا ہے۔ اور بے چارہ ستم رسیدہ زیر دست یا تو اگلی زیادتی کے لیے تیار رہتا ہے یا ہمیشہ کے لیے اس کی زبان صدائے زیر لبی کی بھی ہمت نہیں جٹا پاتی ہے۔ اس طرح کے فساد وبگاڑ اور ظلم وزیادتی میں ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ سے پہلے ’’جو ہوا وہ کیوں ہوا‘‘ اور ’’جو ہوا پھر نہ ہو‘‘ جیسی گتھیوں کو سلجھانا بہت ضروری ہے۔ ان پیچ وخم کی گرہ کشائی کے بغیر نہ تو ظلم پر لمبے عرصے کے لیے قد غن لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی زیر دستوں کی آہ وکسک زیر لب سے باہری دنیا تک پہنچ سکتی ہے۔ لہٰذا جو ہو سوا کی اپنی دل آویزی و کشش کے باوجود کیوں ہوا؟ اور پھر نہ ہو جیسے نفسیاتی پہلوؤں پر غورکرنے سےہی معاشرے میں تادیر امن قائم کیا جاسکتا ہے اور کامل انصاف کے ساتھ ہی مصالحت کی کوششیں حقیقی معنی میں بار آور ہوسکتی ہیں۔
بدھ، 14 ستمبر، 2022
جو ہوا، سو ہوا
شاہد وصی
نامعلوم ماقبل تاریخ سے آج کی معلوم و مشاہداتی دنیا تک انسانی معاشرت میں آپسی ناچاقی، فساد وبگاڑ اور باہمی دشمنی کو ختم کرنے کے لیے جتنی بھی مصالحانہ کوششیں ہوئی ہیں اور صلح وصفائی کی جتنی بھی نشستیں لگی ہیں، ان تمام میں ایک مشترک جملہ ’’مضی ما مضی‘‘ ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ مصالحت کی کلائمس میں ضرور سنائی دیتا ہے۔ دنیا انگنت کروٹیں لے چکی، صدیاں بیت گئیں ، ہزاروں سال کا عرصہ گزر گیا، اس دوران خدا معلوم کتنی بستیاں بسیں اور پیوند خاک ہوگئیں، نسل در نسل لوگ آتے گئے اور گور غریباں میں حشرات الارض کی خوراک بنے، آبادی وخرابی کا یہ لا متناہی سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ اس تمام عرصے میں ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ کی صدائے بازگشت بھی مصافحہ ومعانقہ کے ہم قدم چلی آرہی ہے۔
’’جو ہوا، سو ہوا ‘‘یہ جملہ دیکھنے میں جتنا مختصر اور چھوٹا ہے، حقیقت میں اس کی سحر انگیزی وثمر آفرینی احاطۂ تحریر سے پرے ہے۔ یکلخت دشمنیاں ختم ہوجاتی ہیں، آناً فاناً قلبی کدورتیں بیاباں کی راہ پکڑتی ہیں، ناگاہ دوریاں نزدیکی سے ہم آغوش ہوجاتی ہیں، اچانک منظر کا منظر بدلا بدلا سا نظر آتا ہے اور چشم زدن میں حقیقتاً ’’جو ہوا‘‘ قصہ پارینہ بن جاتا ہے اور تعلق و لگاؤ کی ایک نئی داستان شروع ہو جاتی ہے۔
جتنے بھی سماجی مصلحین اور انسانی نفسیات کے شناسا گزرے ہیں، تمام نے اصلاح اور نفسیاتی گتھیوں کی گرہ کشائی کے لیے اسی جادوئی جملے کا سہارا لیا ہے اور یقین مانیے اسی ایک جملے سے سماج و معاشرے کو لا شمار خوشیاں ملی ہیں۔
آپ نے شیخ ظہور الدین حاتمؔ کا نام سنا ہی ہوگا۔
نہیں
کیا کہتے ہو میاں؟
ارے بھائی! وہی دلی والےسپاہ پیشہ، مرزا محمد رفیع سودا کے استاد۔ ان کا ایک شعر دیکھئے۔
یوں نہ ہو، یوں ہو، یوں ہوا سو کیوں
کیا ہے یہ گفتگو، ہوا سو ہوا
اور ایک شعر موسیقار نوشاد کی زبانی بھی سنئے۔
چھوڑو جانے دو جو ہوا سو ہوا
آج کیوں کل کی بات یاد کرو
یہی کل کو بھول کر اور ہوچکے پر چادر فراموشی ڈال کر نئے آج کی شروعات ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ کا تتمہ کہلاتا ہے۔ لیکن یہاں تھوڑا ٹھہر کر، قدرے توقف سے خیال وفکر کے گھوڑے اس طرف بھی دوڑانے کی ضرورت ہے کہ کیا ہر مسئلہ میں ’’جو ہوا سوہوا‘‘ کا فارمولہ کارآمد ہے؟ کیا ہر طرح کے فساد و بگاڑ کیلئے یہ نسخہ یکساں طور سے نسخۂ کیمیا کا درجہ رکھتا ہے؟ اور اسی ایک دوا سے ہر مرض کا تیر بہدف علاج کس حد تک درست ہے؟
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں