بدھ، 15 جون، 2022

تبصرہ: اردو جرنل 12

نام مجلہ: اردو جرنل

صفحات: ۳۵۳، سنہ اشاعت: ۲۰۲۱ء

قیمت: ۳۰۰؍ روپئے 

مدیر: ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی 

ناشر: شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ 

مبصر: شاہد وصی، ، رابطہ: 9006331029

آج کے کتب بیزار معاشرے ،لذت ورق گردانی سےناآشنا سماج اور ان لوگوں کے درمیان جن کی انگلیاں صفحۂ قرطاس کے بجائے موبائل کی اسکرینوں پر زیادہ دوڑتی ہیں ، کسی رسالے کا تسلسل کے ساتھ شائع ہونا اور ساتھ ہی ساتھ ادبی معیار اور مندرجاتی انفرادیت کو بھی برقرار رکھنا کار فرہاد سے کم نہیں۔ شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے سالانہ اکیڈمک ریسرچ جرنل ’’اردو جرنل‘‘ کا شمار بھی انہی رسائل میں ہوتا ہے۔ ۲۰۱۰ء سے پابندی کے ساتھ یہ رسالہ شائع ہورہا ہے۔ اس رسالے کی انفرادیت یوں بھی ہے کہ اس کا ہر شمارہ کسی نہ کسی خاص موضوع یا شخصیت پر مشتمل رہا ہے۔ ماضی میں ’’تحقیق وتنقید‘‘، ’’ہم عصر اردو افسانہ‘‘، ’’ہم عصر اردو ناول‘‘ ،’’ہم عصر اردو شاعری‘‘ اور ’’اردو زبان وادب کے فروغ میں پٹنہ یونیورسٹی کی خدمات‘‘ پر نمبر بھی شائع ہوچکا ہے۔ اسی کے ساتھ بعض دیگر شمارے میں فیض احمد فیض، سہیل عظیم آبادی، اسرار الحق مجاز، سعادت حسن منٹو وغیرہ پر خصوصے گوشے بھی شامل رہے ہیں۔ مدیر مجلہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے بقول ۲۰۲۱ء چونکہ اکبر الہ آبادی کی وفات صدی اور ساحر لدھیانوی کی پیدائش صدی ہے، اس لئے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے حالیہ بارہواں شمارہ بھی حسب روایت اردو کے دو بڑے شعرا اکبر الہ آبادی اور ساحر لدھیانوی کے گوشوں پر محیط ہے۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی معاصر فکشن ناقدین میں اعتبار کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے تنقیدی خیالات اور فکری آرافن پارے کی تفہیم میں حد درجہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسالے میں بھرتی کے مضامین اور برائے ضخامت والی تحریریں راہ نہیں پاتیں، بلکہ بڑی ژرف نگاہی اور حسن انتخاب کے ساتھ قابل اشاعت مضامین ہی شامل اشاعت ہوتے ہیں۔ 

زیر تبصرہ بارہویں شمارے کا پہلا حصہ اکبر الہ آبادی کے فکر وفن پر مشتمل ہے۔ اس میں بوستان اکبر کے تحت فاضل مدیر نے پروفیسر محمد حسن، پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر ابوبکر عباد، ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، مولانا سید شاہ محمد ریان، ڈاکٹر شیخ فاروق باشا، ڈاکٹر محمد شارب وغیرہ مشاہیرادب کی تحریروں کو جگہ دی گئی ہے۔ وہیں گلہائے نو کے ذیلی عنوان کے ساتھ نو واردان بساط ادب کی تحریریں شامل ہیں۔ پروفیسر قدوس جاوید نے اپنے مضمون’’افکار اکبر الہ آبادی کی عصری معنویت‘‘ میں عصری پس منظر میں کلام اکبر کی نئی تفہیم وتعبیر کی ہے۔ اس مضمون میں ماضی پرستی اور مغرب بیزاری کے تعلق سے اکبر اور اقبال کے خیالات کو تقابلی انداز میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اکبر الہ آبادی کے تعلق سے عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے نام کو قہقہوں نے اچھالا اور طنز وظرافت کے ہم دوش ان کی شہرت پروان چڑھی ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ان ہی عناصر کی وجہ سے کلام اکبر اور افکار اکبر حیات و بقا کی ایک ڈیرھ صدی گزار چکا ہے؟ پروفیسر علی احمد فاطمی نے اپنے مضمون ’’اکبر الہ آبادی کی شعری روایت اور اکبر کی غزلیہ شاعری کے چند پہلو‘‘ میں اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے آفاقیت وحیات کی نئی کڑی تلاش کی ہے اور اکبر کی غزلیہ اور صوفیانہ شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں: ’’یہ الگ بات ہے کہ ان کی طنزیہ ومزاحیہ نظم نگاری کا جادو اردو شاعری پر کل بھی چڑھا ہوا تھا اور آج بھی۔ اردو دنیا کی اس سرمایۂ غزل کی طرف توجہ نہیں گئی یا کم گئی ورنہ اکبر کی اس رنگ کی شاعری بلاشبہ اردو کی اس صوفیانہ شاعری سے آنکھیں تو ملاتی ہی ہے جہاں درد، میر، غالب اور آتش جیسے جید شعرا نظرآتے ہیں‘‘۔ (ص۳۹) پروفیسر ابوبکر عباد کا مضمون ’’اکبر الہ آبادی کی قرأت نو‘‘ فکری لحاظ سے اکبر کے تصورات کو سمجھنے اور فنی اعتبار سے ان کی شاعری کے پوشیدہ گوشوں کو دریافت کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بشمول مذکورہ مضامین اس حصے میں کل اٹھارہ (۱۸) مضامین شامل ہیں جس میں اکبر الہ آبادی کے فکرو فن کو نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

مجلے کا دوسرا حصہ جوان دلوں کے شاعر اور رومان وانقلاب کے ترجمان ساحر لدھیانوی کے نام ہےجس میں کل سولہ (۱۶) مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ گلشن ساحر کے تحت جہاں پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر عبد الحنان سبحانی، ڈاکٹر رشید جہاں انور، ڈاکٹر سورج دیو سنگھ جیسے معتبر وسینئر ناقدین ادب کی تحریریں شامل اشاعت ہیں وہیں چمن تازہ کے عنوان کے ذیل میں ڈاکٹر شیخ عمران، ڈاکٹر عبد الباسط حمیدی، ڈاکٹر محمد سہیل انور اور ڈاکٹر نور نبی انصاری جیسے نئے لکھاریوں کے مضامین کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ ساحر لدھیانوی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے بھی رہا ہےاور ترقی پسند شاعری کے بارے میں عمومی تصور یہ رہا ہے کہ یہ صرف نعرہ بازی کی شاعری ہے، اس میں خطابت اور مقصدیت کا غلبہ ہوتا ہے۔ ساحر کے تعلق سے بھی یہ غلط فہمی عام ہے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی نے اپنے مضمون ’’امید ونشاط کا شاعر: ساحر لدھیانوی‘‘ میں اسی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہیں پروفیسر اسلم جمشید پوری نے ساحر کی دو نظموں ’’اے شریف انسانو!‘‘ اور ’’مگر ظلم کے خلاف‘‘ کا جائزہ لیا ہے اور عصری پس منظر میں اس کی تفہیم نو کی ہے۔ ڈاکٹر شہناز بانو نے اپنے طویل مضمون ’’ساحر: فلمی نغموں کا سوداگر‘‘ میں ساحر کے اکثر بیشتر فلمی نغموں کی روداد قلمبند کردی ہے۔ مجموعی اعتبار سے مجلہ کا یہ حصہ بھی ساحر کے فکر وفن اور ان کی شاعری کے مختلف جہات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ مدیر کا حسن انتخاب ہی ہے کہ اکبر وساحر کا یہ دونوں گوشہ ظاہری اعتبار سے گوشہ ضرور نظر آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے کسی معتبر نمبر سے کم نہیں ہے۔ 

مجلے کے تیسرے حصے میں گلستان نقد ونظر کے تحت مختلف موضوعات پر تحقیقی وتنقیدی مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ اس حصہ میں کل تیرہ (۱۳) مضامین شامل ہیں۔ پروفیسر شہاب الدین ثاقب کا مضمون ’’بہار میں اردو تحقیق: آغاز تا امروز‘‘ نہایت وقیع اور محققانہ مضمون ہے۔ اس مضمون میں بہار میں اردو تحقیق کی مکمل روایت کا قدرے اجمالا قدرے تفصیلا تذکرہ موجود ہے۔ وہیں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون ’’نظیر اکبر آبادی اور ڈاکٹر فیلن‘‘ بھی ایک تحقیقی مضمون ہے۔ جس میں مضمون نگار نے ایس ڈبلیو فیلن کی تالیف کردہ تین لغات کا جائزہ لیا جس کے اندر ڈاکٹر فیلن نے تقریباً دو ہزار الفاظ، محاورات، ضرب الامثال، مرکبات اور اصطلاحات پیشہ وراں کو نظیر کی سند کے ساتھ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔ وہیں محمد عارف حسین کا مضمون ’’دبیر کا غیر منقوط کلام‘‘ اپنی نوعیت کا نیا اور منفرد مضمون ہے۔ 

یہ رسالہ اپنے اندر افادی پہلو کو سمیٹے ہوا ہے۔ مجلہ کے کل صفحات ۳۵۲؍ ہیں۔ دیدہ زیب سرورق ، عمدہ طباعت کے ساتھ اس کی قیمت ۳۰۰؍ روپئے رکھی گئی ہے۔ 

(یہ تبصرہ ’’اردو دنیا‘‘ جون 2022 کے شمارے میں شائع ہوا ہے) 

کوئی تبصرے نہیں: