ڈاکٹر شاہد وصی
سرزمین بہار ہمیشہ سے اردو زبان وادب کے گیسو و کاکل کو سنوارتی آرہی ہے۔ اردو خواہ جمنا کنارے جمنی ہو یا راوی و ستلج کی موجوں سے اس نے اٹکھیلیاں کرنی شروع کی ہو، دریائے سندھ کے ساحلوں پراس نے بال و پر نکالے ہوں یا جنوب کی پہاڑیوں پر اس نے چوکڑیاں بھری ہوں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہار بھی روز اول سے ہی اردو ادب کی عظیم وراثت کی امین رہی ہے۔ یہاں نثر و نظم کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید اور ادب کی تمام جدید اصناف کی روایتیں بھی ہمیشہ زندہ و تابندہ رہی ہیں۔ جس زمانے میں الطاف حسین حالیؔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ لکھ کر تذکراتی و بیاضی تبصروں کو تنقید کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کررہے تھے اور اردو کے شعری سرمایے کی قدر و قیمت متعین کرنے کے ساتھ اس کے اصول و ضوابط لکھ رہے تھے، اسی زمانے میں بہار میں بھی ’’کاشف الحقائق‘‘ کے ذریعہ امداد امام اثرؔ عالمی شعری پس منظر میں اردو شاعری کا مطالعہ کررہے تھے۔ جس عہد میں مولوی نذیر احمد اردو کی داستانوی روایت سے انحراف کرتے ہوئے نئی صنف ’’ناول‘‘ کی داغ بیل ڈال رہے تھے، ٹھیک اسی عہد میں یہاں شاد عظیم آبادی اور اصلاح النساء نے بھی اس صنف میں لائق تقلید نقش پا چھوڑے۔ اردو ادب کو تحقیق کا ’’معلم ثانی‘‘ اسی سرزمین نے عطا کیا اور اسی خاک سے تنقید کا وہ شعلہ جوالہ ابھرا جس نے ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ ڈال کر بہت سارے خود ساختہ بتوں کو تنکوں کی مانند اڑا دیا۔ اس ادبی وراثت کا ایک اہم حصہ میر شناسی کی روایت بھی ہے، جو اس خطے کے ادیبوں اور دانشوروں کے فکری شعور اور ذوقِ سخن کا مظہر ہے۔
میر تقی میرؔ کو آپ خدائے سخن مانیں یا نہ مانیں، اس کے سر پیغمبرانہ سخنوری کا تاج سجائیں یا نہ سجائیں، اس حقیقت سے مفر نہیں کہ میر کی شاعری ایک ایسی کائنات ہے جس میں جذبات، احساسات، غم اور خوشی کے بے شمار رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی غزلوں نے محبت کی لطافت، درد کی شدت، اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑے دلکش اور سادہ انداز میں پیش کیا ہے۔زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد میر کی شاعری دو صدی گزرنے کے بعد آج بھی اتنی ہی پرکشش اور جاذب قلب و نظر ہے ۔ ’’نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب‘‘، ’’کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا‘‘اور ’’کون یہ نغمہ سرا میرؔ کے انداز میں ہے‘‘ کے ذریعہ ذوقؔ، غالبؔ سے لیکر عہد حاضر کے کلیمؔ تک نے میر کے انداز اور سخنوری کے سامنے اپنی جبین عقیدت خم کی ہے۔
میرؔ اردو شاعری کے ایسے لعل ہیں جن کی شعریات کی تفہیم و تعبیر ہر دور کے ناقدین نے کی ہے۔ عہد تذکرہ نگاری سے لیکر جدید تنقید نگاری تک سبھی ناقدین نے میرؔ کی شاعری کے مختلف جہات کو روشن کیا ہے اور اس کی قدر و قیمت متعین کرنے کے ساتھ اس میں نئے جہانِ معانی کی تلاش کی ہے۔ میرؔ کو گزرے دو سو سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا، لیکن ان کے کلام کی آفاقیت و ہمہ گیری آج بھی ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ میر شناسی کے حوالے سے جب ہم بہار کے تذکرہ نگاروں اور ناقدوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس ضمن میں پہلا نام میر غلام حسین شورشؔ عظیم آبادی (متوفی ۱۱۹۵ھ) کا آتا ہے۔ یہ میرؔ کے ہم عصر ہیں اور میرؔ کی حیات ہی میں انہوں نے شعرائے ریختہ کا تذکرہ ’’تذکرۂ شورش‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ یہ تذکرہ فارسی زبان میں ہے۔ اس تذکرے کی بابت پروفیسر اعجاز علی ارشد لکھتے ہیں:
’’تذکرۂ شورش کی اس اہمیت سے قطع نظر کہ یہ کسی بہاری مصنف کا مرتب کردہ شعرائے ریختہ کا پہلا تذکرہ ہے۔ اس کی چند اور خصوصیات بھی قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ تذکرہ ایک طرح سے میرؔ کے مشہور تذکرے ’’نکات الشعرا‘‘ کے جواب میں لکھا گیا ہے، لیکن اس میں کہیں بھی جواب الجواب کی کیفیت نہیں پیدا ہوئی ہے، نہ ہی شورشؔ نے کہیں جارحانہ انداز اختیار کیا ہے۔ اس کے برخلاف میرؔ نے بعض شاعروں کے بارے میں اپنے طور پر جو رائیں دی ہیں انہیں شورشؔ نے دوسری مثالوں سے غلط ثابت کردیا ہے۔‘‘ (۱)
غلام حسن شورشؔ نے ’’تذکرہ شورش‘‘ میں میرؔ کے حالات زندگی ذکر کرنے کے ساتھ اس کی شاعری پر جا بجا اعتراضات کیے ہیں، جو درحقیقت تنقید کے زمرے میں رکھے جانے کے قابل ہیں۔ انہوں نے میرؔ کا تذکرے کرتے ہوئے ان کی سیادت کا ہی انکار کردیا ہے۔ شورشؔ لکھتے ہیں:
’’میرؔ۔ شاعر بے نظیر محمد تقی میرؔ تخلص، شاگرد خان آرزوؔ متوطن اکبر آباد الحال در شاہجہان آباد تشریف می دارند و فخر شاعران دہلی خود را می دانند۔ چنانچہ در تذکرہ خود شعر شاعران ہندوستان غلط تلاش نمودہ مرقوم ساختہ۔ اگر غلط بدست نیامدہ تاہم اعتراض بیجا و اصلاح خود جاری نمودہ۔ وزندہ و مردہ کسے را سلامت نہ گزاشتہ۔ مگر بعضے اعزہ کہ ازو مربوط بودند آن را محفوظ داشتہ۔غرض عجب کسے است و در تذکرہ خود راسید نوشتہ اند۔ مردمان می گویند کہ شیخ است چنانچہ کسے گفتہ
شیخ تقی نام ہو اور میر کہاوے
دیگرے می گوید: دلی میں ایک شیخ زادا گنجفہ کا میر ہے
سوائے ازیں فتح علی گردیزی در تذکرہ خود تقی میر را سید نہ نوشتہ است پس ایشان را برائے استحکام سیادت کاذبہ خود میرؔ تخلص نمودہ اند۔‘‘ (۲)
شورشؔ میرؔ کا شعر ’’ غم سے یہ میں نے طرح نکالی نجات کی /سجدہ اس آستاں پہ کیا اور وفات کی ‘‘ ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ میرؔ نے یہاں ’’وفات کی‘‘استعمال کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے، کیونکہ وفات کے ساتھ جو محاورہ استعمال ہوتاہے وہ ’’وفات پائی‘‘ اور ’’وفات ہوئی‘‘ ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’روزے بخدمت شاہ اعز الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کہ در خوشنویسی و در شعر فہمی عالی قدر اند برائے استفادہ التماس کردند کہ وفات کی درست است۔ شاہ صاحب موصوف فرمودند کہ درست نیست گفتند کہ استاد گفتہ فرمودند کدام استاد ایشان ایں شعر تقی میرؔ خواندند۔ صاحب فرمودند کہ قبل ازیں نمی گفتند الحال ایں چنیںالفاظ می گویند حاصل ایں است کہ وفات پائی، وفات ہوئی درست است‘‘۔ (۳)
’’تذکرہ شورشؔ‘‘کے بعد نواب علی ابراہیم خاں خلیلؔ (۱۱۵۳ھ تا ۱۲۰۸ھ) کا تحریرہ کردہ ’’تذکرہ گلزار ابراہیم‘‘ (۱۱۹۸ھ) میں بھی میر شناسی کا عکس نظر آتا ہے۔ تذکرہ نگاری کی روایت میں ’’تذکرہ گلزار ابراہیم‘‘ کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ علی ابراہیم خلیل نے صرف سنی سنائی باتوں پر اعتبار نہیں کیا بلکہ انہوں نے معتبر ذرائع سے مواد حاصل کرنے بھی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ اس میں ابراہیمؔ نے شعرائے کے حالات زندگی اور وفات کی تاریخ کا تعین بھی کیا ہے۔ اور اپنے معاصرین کے خطوط کے اقتباسات اور کلام کے نمونے بھی پیش کئے ہیں۔ گلزار ابراہیم میں کل ۳۲۰ شعرائے ریختہ کے تذکرے شامل ہیں۔ یہ تذکرہ فارسی زبان میں لکھا گیا ہے۔ اس تذکرے کی خاص بات یہ ہے کہ ابراہیم خلیل نے اس تذکرے میں سماج کے اعلیٰ طبقہ سے وابستہ شعرا کے ساتھ پست طبقے سے تعلق رکھنے والے نو مشق اور غیر معروف شعرا کو بھی اس میں جگہ دی ہے۔ فورٹ ولیم کالج کے تحت جب کلاسیکی ادبیات کا اردو میں ترجمہ کرایا جارہا تھا، تب ’’گلزار ابراہیم‘‘ کا اردو ترجمہ مرزا علی لطفؔ نے ’’گلشن ہند‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ لیکن یہ مکمل طور پر ترجمہ کہا نہیں جاسکتا، کیونکہ مرزا علی لطفؔ نے اس میں جابجا ترمیم و اضافہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ’’گلزار ابراہیم‘‘ کے نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تعلق سے ’’میر تنقید: تذکروں سے عصر حاضر تک‘‘ کی مصنفہ ڈاکٹر ریشماں پروین لکھتی ہیں:
’’۔۔۔۔۔ مگر گلشن ہند کو صرف ترجمہ کہنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے کہ لطفؔ نے شعرا کے حالات کے بار ے میں بہت سے اضافے کردیئے ہیں۔ دوسرے فارسی متن کو اردو میں منتقل کرتے وقت اپنی طرف سے بعض باتیں بڑھا دی ہیں۔‘‘۔ (۴)
بہاری تذکروں میں میر شناسی کے حوالے سے کچھ نقوش شیخ وجیہہ الدین عشقی عظیم آبادی کا لکھا ہوا ’’تذکرہ عشقی‘‘ بھی قابل ذکر ہے۔ یہ تذکرہ بھی فارسی زبان میں ۱۲۱۵ھ میں لکھا گیا۔ اس تذکرے میں عشقیؔ نے دوسرے تذکرہ نگاروں کی طرح صرف میرؔ کی سوانح پر زور دیا ہے۔ وہ میرؔ کو میر مجلس سخن پروری کہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میرؔ سراج الدین علی خاں آرزو کے بھانجے اور آگرہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی شہرت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ عشقی نے میر کی شاعری کے تعلق سے کوئی خاص کلام نہیں کیا ہے کہ جس سے کلامؔ میر کی خصوصیات واضح ہوسکے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔۔ میرؔ محمد تقی میر تخلص ہمشیرہ زادہ وتربیت کردہ سراج الدین علی خان آرزو، از خوش گویان و متوطنان خطہ اکبر آباد است تاحال در قلمرو ہندوستان چنیں غزل سرائے ادا بند زبان دان برنخواستہ۔ شہرۂ حسن اوصاف آن سخن گستر قاف تا قاف رسیدہ وآوازہ روشن بیان والا گہر آویزہ گوش ماگردیدہ۔۔۔۔۔۔ در آخر باستدعائے نواب آصف الدولہ بہادر وارد شہر لکھنو گردیدہ باعزاز و اکرام می گزارند۔ خدایش سلامت باکرامت دارد‘‘۔ (۵)
مذکورہ تینوں تذکرے میرؔ کے عہد میں لکھے گئے۔ ان میں میر پر کی جانے والی بحث کو تنقید کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے یا نہیں، اس بابت اردو کے ناقدین کی آرا مختلف ہیں۔ بعض جدید ناقدین کی نگاہ میں اردو کے تذکروں میں سرے سے تنقید ہے ہی نہیں، البتہ اکثر نقادوں نے ان تذکروں میں کئے گئے تبصرے کی تنقیدی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔ میرؔ کے حوالے سے ان تذکروں میں پیش کی گئیں آرا کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ میرؔ کے کلام کی تفہیم و تنقید خود عہد میرؔ میں ہی شروع ہوگئی تھی اور اس باب میں بہاری تذکرہ نگارنے بھی حصہ لیا تھا۔ تذکرہ نگاری کے بعد جب حالیؔ، امداد امام اثرؔ اور شبلیؔ کے ذریعہ اردو میں جدید تنقید نگاری کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی تو اس تثلیث میں ایک نام امداد امام اثرؔ کا تعلق بھی سرزمین بہار سے تھا۔ اثرؔ کی کتاب ’’کاشف الحقائق‘‘ حالیؔ کے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ کے تقریباً ۴؍ سال کے بعد ۱۸۹۷ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔ اس میں مختلف اقوام جہاں کی شاعری کا ذکر ہے اور اخلاق، مذہب و معاشرت کے مسائل سے بھی بحث کی گئی ہے۔ مصر و یونان اور اٹلی و عرب کی شاعری پر گفتگو کرنے کے ساتھ امداد امام اثرؔ نے مختلف شعری نکات پر نگاہ ڈالی ہے اور شاعری کی تعریف کرنے کے ساتھ اس کا مختلف فنون لطیفہ کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہے، اسے بھی بیان کیا ہے۔
’’کاشف الحقائق‘‘ میں امداد امام اثرؔ نے میر تقی میر کا تذکرہ غزل اور مثنوی کے باب میں قدرے تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ ان کی نگاہ میں میرؔ کی غزل سرائی کا کوئی جواب نہیں، میرؔ کے کلام سے زیادہ خوبصورت اور کسی کا کلام نہیں۔ اثرؔ کے خیال میں میرؔ کی غزل سرائی تمام کی تمام واردات قلبیہ سے متعلق ہیں، جن کی وجہ سے ان کے کلام میں سوزو گداز اور ملاحت و شیرینی در آئی ہے۔ البتہ سوز و درد کے معاملات میں اثرؔ خواجہ میرؔ درد کو میر تقی میرؔ پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔ یہ سب صفتیں خواجہ میرؔ درد کے کلام میں بھی موجود ہیں، مگر بدانست فقیر خواجہ صاحب کے کلام میں میرؔ صاحب کے کلام کے اعتبار سے خستگی کم ہے، لیکن سوز ودرد خواجہ صاحب کا میرؔ صاحب سے بڑھا نظر آتا ہے۔ علاوہ اس کے پاکیزگی اور نفاست خواجہ صاحب کے کلام کی بہت قابل توجہ ہے اسی طرح میر صاحب کے کلام میں دل گرفتگی، محزونی اور نشتریت خواجہ صاحب کے کلام سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ خیر یہ سب کیفیات قلبی میں یہی دونوں حضرات ایک دوسرے کے جواب نظر آتے ہیں، مگر میر صاحب کو جو خواجہ صاحب پر غلبہ نظر آتا ہے وہ قوت شاعری کے اعتبار سے ہے کہ یہ قوت میرؔ صاحب کو خواجہ صاحب سے زیادہ حاصل تھی‘‘۔ (۶)
میرؔ کی غزل سرائی اور سخن سنجی کی تعریف کرنے کے بعد اثرؔ کہتے ہیں کہ میرؔ کی راہ پر چلنے کی بہتوں نے کوشش کی، لیکن کسی کو وصال الی المطلوب حاصل نہ ہوسکی۔ ان کے خیال میں ذوقؔ، ناسخؔ اور آتشؔ نے جس قدر منزلیں طے کیں وہ میرؔ کی غزل سرائی سے دور ہوگئے، مومنؔ نے اسی پر چلنے کی کوشش کی، لیکن زیادہ دور تک نہ جاسکے، حتی کہ غالبؔ کو بھی منزل مقصود نہ مل سکی۔ امداد امام اثرؔ کی نگاہ میں میرؔ بلا شبہ غزلوں کے بادشاہ ہیں، کیونکہ ان کے یہاں واردات قلبیہ اور امور داخلی اعلیٰ پیمانے کی ہے اور یہ چیزیں عمدہ غزل سرائی کے لوازمات ہیں، لیکن جہاں جہاں خارجی مضامین باندھنے کی ضرورت پڑی ہے، وہاں میرؔ کامیاب نظر نہیں آتے ہیں۔ چنانچہ مثنوی کے باب میں اثرؔ میر تقی میرؔ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میر لاریب سلطان المتغزلین تھے، مگر حضرت کی مثنوی نگاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو درجہ غزل سرائی میں حاصل ہے وہ مثنوی نگاری میں نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو صرف مضامین داخلی کی بندش کی بڑی قابلیت تھی، لیکن مثنوی نگاری کی وہی شاعر داد دے سکتا ہے جو مضامین خارجی کی بندش پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے۔ یہ قدرت آپ کو بہت حاصل نہ تھی، اس لیے آپ کی مثنویاں تمام تر داخلی پہلو کی شاعری سے خبر دیتی ہے درحقیقت آپ کی مثنوی نگاری بھی مضامین کے اعتبار سے ایک قسم کی غزل سرائی نظر آتی ہے۔ آپ کی مثنوی میں خارجی مضامین گویا ندارد ہیں‘‘۔ (۷)
’’کاشف الحقائق‘‘ کے بعد بہار میں میر شناسی کے باب میں عبد المنان بیدل عظیم آبادی کی کتاب ’’اشعار میر‘‘ (۱۹۳۵ء) بھی قابل ذکر ہے۔ اس کتاب پر پروفیسر عظیم الدین احمد کا لکھا ہوا مقدمہ بھی میر شناسی کے باب نئی اور اہم پیش رفت ہے۔ ڈاکٹر عظیم الدین کی نگاہ میں میر یاسیت پسند شاعر ہیںاور وہ اپنے اشعار میں دل کی پریشان حالی اور اثر افروختگی کی کامیاب تصویر کھینچتے ہیں۔ انہوں نے مقدمہ میں مختلف عنوانات کے تحت میرؔ کے اشعار کا انتخاب پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ میرؔ کے شاگردوں اور بعد کے شعرا جو میرؔ سے متاثر ہوئے ہیں، ان کے اشعار کی نشاندہی بھی ہے۔ انہوں نے جو عنوانات قائم کیے ہیں، ان سے میرؔ کی شعریات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ عشق کے اثرات، پراگندگی طبع، دیوانگی، شوق، محزونی، بے خودی، دردمندی، آرزو، فراق کا دکھ، عذاب زندگی، ناامیدی، محروی، حیرانی، معشوق سے خیالی گفتگو، دل گدازی جیسی کیفیات کے ذریعہ عظیم الدین احمد نے میرؔ کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔
’’اشعار میر‘‘ کا پیش لفظ عبد المنان بیدلؔ نے لکھا ہے۔ پیش لفظ کے بعد انہوں نے میرؔ کے حالات زندگی، ان کی تصانیف، اس عہد کی معاشرت، کلام میرؔ کا جائزہ، معتقدمین میرؔ، تلامذہ میرؔ، معاصرین میرؔ، محاسن کلام میرؔ، عیوب کلام میرؔ جیسے مختلف عنوانات کے ذریعہ میرؔ کی شاعری کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ کلام میرؔ کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر عبد المنان ’’میر کو خدائے سخن کیوں کہا جاتا ہے‘‘ سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے جواز میں وہ کہتے ہیں کہ میرؔ نے تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے، بعض سے ان کی ذہنی مناسبت نہیں تھی، جس میں وہ کمال نہیں کرسکے، البتہ غزل میں میرؔ کا دیوان گلہائے تر کا لاجواب گلدستہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خدائے سخن میرؔ نے تمام اصناف شاعری پر طبع آزمائی کی گو ان کی خاص اور محبوب عام چیز غزل ہے، قصیدہ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، واسوخت، سبھی کچھ لکھا قصیدہ ان کی افتاد طبیعت کے خلاف تھا، مرثیہ انہوں نے محض بغرض ثواب لکھا اور اسی لیے ان میں مرثیہ گویوں کی خوش اسلوبی نہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر میرؔ مہر منیر ہوکر چمکے تو غزل میں۔ میرؔ کا دیوان گلہائے تر کا ایک ایسا گلدستہ لا جواب ہے جس کی خوشبو قیامِ قیامت تک مشامِ جان کو معطر کرتی رہے گی۔ میرؔ کے اشعار میں پیام حیات ہے، میرؔ کی غزلوں میں فلسفہ عشق ہے، میرؔ کے کلام میں فن غزل گوئی کی تکمیل ہے‘‘۔ (۸)
سید شاہ محمد عطا الرحمٰن عطا کاکوی بہار کے نامور ادیب، شاعر اور محقق گزرے ہیں۔ انہوں نے اردو تحقیق کو اپنی بیش بہا تحقیقات سے ثروت مند کیا ہے۔ میر شناسی یا میر تنقیدکے تعلق سے انہوں نے گرچہ کچھ زیادہ نہیں لکھا ہے، البتہ انہوں نے ’’تین تذکرے‘‘ کی تدوین کی ہے جس میں ایک تذکرہ میرؔ کی ’’نکات الشعرا‘‘ ہے۔ اسی طرح ان کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا ایک مجموعہ ’’تحقیقی مطالعے‘‘ کے نام سے ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا تھا، جس میں شامل ’’میر کے مفروضہ اشعار‘‘، مثنوی دریائے عشق مرتبہ کارمائیکل اسمتھ‘‘ اور ’’میر کی ایک مفروضہ غزل پر محاکمہ‘‘ مضامین کا تعلق میریات سے ہے۔
پروفیسر اختر اورینوی اور پروفیسر کلیم الدین احمد بھی بہار کے نامور ادیب اور دانشور ہیں۔ ان دونوں نے گرچہ میرؔ پر کوئی باضابطہ تصنیف تو نہیں لکھی ، البتہ اول الذکر نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’مطالعہ و محاسبہ‘‘ میں ’’نقد میرؔ‘‘ نامی مضمون لکھ کر میر کی شاعری پر کی جانے والی عمومی گفتگو سے ہٹ کر نئے جہان معانی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور روایتی نقد سے انحراف کرتے ہوئےمیرؔ کی شاعری میں یاس و حسرت کے علاوہ زندگی کے دوسرے معاملات کو تلاش کیا ہے۔ ان کے خیال میں میرؔ نے اپنی شاعری میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کا اظہار اپنے خاص رنگ میں کیا ہے۔ وہیں اردو تنقید کے بت شکن کے طور پر مشہور پروفیسر کلیم الدین احمد نے ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ کے اندر میرؔ کی دنیا کی تنگی اور ذہن و ادراک کی محدودیت کو ثابت کیا ہے۔ میرؔ ہی کیا انہوں نے تو سرے سے غزل کو ہی نیم وحشی صنف سخن قرار دے کر دردؔ و سوداؔ تک کے غزلوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ میرؔ پر اپنی تنقید میں کلیم الدین احمد نے میرؔ کو گرچہ غزل گو شعرا میں اہم مقام دیا ہے مگر بحیثیت شاعر ان میں کچھ خامیاں بھی گنوائی ہیں۔ مثلاً میرؔ کی قوت حاسہ محدود تھی، ان کے خیالات سطحی اور معمولی ہیں، ان کا عشق یک رخا اور ہمیشہ یاس انگیز ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ گو ان خامیوں کے باوجود کلیم الدین احمد نے میرؔ کی شاعری کو دلکش اور متاثر کن قرار دیا ہے۔ وہ میرؔ کی شاعری میں اس اثر آفرینی کا اقرار کرتے ہیں جو میرؔ کی شاعری میں نیاپن اور ’’میریت‘‘ پیدا کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میر کی قوت حاسہ مخصوص و محدود قسم کی تھی یا یوں کہیے کہ میرؔ کی دنیا یک رنگ تھی۔ میرؔ وہی داخلی و خارجی اثرات قبول کرتے تھے جو ایک خاص رنگ کے یعنی درد و غم کا نمونہ ہوتے تھے۔ ان کی فطرت اس خصوصیت کو ماحول کے اثر اور ان کی افتاد زندگی نے اور بھی محکم کردیا تھا۔ مسرور و متبسم اثرات میرؔ کو پسند نہ تھے۔ ان کی پژمردہ دلی شگفتہ جذبہ یا شاد کام خیال کی طرف مائل نہ ہوتی تھی۔ ان کی تنگ حالی وسعت تخیل سے گریز کرتی تھی‘‘۔ (۹)
اردو تحقیق کی روایت میں قاضی عبد الودود کی خدمات بیش بہا ہیں۔ کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے انہیں اردو تحقیق میں جو مقام حاصل ہے، وہ بہت کم ہی محققین کو حاصل ہوسکاہے۔ رشید حسن خاں جیسے محقق نے انہیں تحقیق کا معلم ثانی قرار دیا ہے۔ قاضی عبد الودود کی سب سے بڑی خاصیت ان کی ایمانداری، غیرجابندارانہ تحقیقی و تنقیدی رویہ اور غیر مرعوبیت ہے۔قاضی صاحب کی بت شکنی مشہور ہے۔ انہوں نے تحقیق و تنقید سے شخصیت پرستی کا خاتمہ کیا ہے۔ ان کی نگاہ میں فرد کی نہیں اس کے کارناموں کی اہمیت تھی۔ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ کے وہ بالکل قائل نہ تھے۔ میرؔ پر ان کے مضامین کا مجموعہ ؔؔ’’میر‘‘ کے نام سے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری نے ۱۹۹۵ء میں شائع کیا ہے۔ اس میں کل ۱۴؍ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ قاضی عبد الودود کے مضامین کا یہ مجموعہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ میرؔ پر ، دوسرا میرؔ کی تصنیفات پر اور تیسرا حصہ میرؔ کے بار میں پہلی مبسوط کتاب کے جائزے پر مشتمل ہے۔ تقریباً چار سو صفحات والے اس مجموعے میں تمام مضامین کی نوعیت تحقیقی ہے، خواہ وہ ذکر میرؔ سے متعلق ہوں یا انتخاب کلام میرؔسے یا بعض کتابوں پر تبصرے، سب کی نوعیت تحقیقی ہے۔ ان تمام مضامین میں قاضی صاحب نے کہیں بھی کلام میرؔ کے محاسن پر تنقیدی گفتگو نہیں ہے۔ البتہ قاضی عبد الودود نے میرؔ کے حالات، ان کے خاندان اور اس عہد کے پس منظر کے سلسلے میں جن حقائق کی بازیافت کی ہے، ان سے میرؔ شناسی کی روایت میں یقیناً قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ ان کی طرز تحقیق کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجئے جہاں وہ میرؔ کے والد کے تعلق سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کہا جاتا ہے کہ محمد علی کو علی متقی کالقب ملا تھا۔۔۔(حواشی)قرینہ یہ ہے کہ یہ لقب خود میرؔکا دیا ہوا ہے۔ذکر میرؔمیں ایک درویش کامل کی حیثیت سے پیش ہوئے ہیں جو ’’شہرہ آفاق‘‘ بھی تھے۔۔۔ذکر میرؔ نہ ہوتی تو آج ان کے نام سے بھی کوئی واقف نہ ہوتا۔ آباو اجداد سے متعلق فسانہ طرازی پہلے بھی ہوتی تھی اور اب بھی ہوتی ہے۔۔۔میرؔاثنا عشری تھے، لیکن قرائن اس پر دلالت کرتے ہیں کہ علی متقی سنی تھے۔میرؔکے تبدیلی مذہب کے اسباب کیا تھے، ان کا علم نہیں۔‘‘(۱۰)ـ
دبستان بہار کے ناقدین میں پروفیسر وہاب اشرفی کا نام بھی اعتبار و وقار کی نگاہ سے لیا جاتا ہے۔ وہ ناقد کے ساتھ ساتھ محقق، ادبی تاریخ نویس اور صحافی کے طور بھی پہچانے جاتے ہیں۔ میر شناسی کے حوالے سے ان کی کتاب ’’میر اور مثنویات میر‘ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلے پہل یہ کتاب ’’مثنویات میر کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی، بعد کے ایڈیشن میں حک و اضافہ کے بعد یہ ’’میر اور مثنویات میر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ مثنویات میر کے حوالے سے یہ ایک باضابطہ اور مکمل کتاب ہے۔ ان سے قبل عبد القادر سروری، گیان چند جین، سید عقیل رضوی اور گوپی چند نارنگ نے بھی میر کی مثنوی سے بحث کی ہے، لیکن سرسری طور پر۔ البتہ وہاب اشرفی نے اس کتاب میں مکمل مثنویات میر کا تنقیدی جائزہ پیش کردیا ہے۔ یہ کتاب کل سات ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں میر تقی میر کی حیات، عہد میر تک اردو مثنوی کا ارتقا، میر کے بعد اردو مثنویاں، میر کی مثنویوں کی تقسیم، اس کے خد و خال اور میر کی زبان وغیرہ ابواب شامل ہیں۔ وہاب اشرفی نے میر کی کل ۳۸ مثنویوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ عشقیہ، واقعاتی، مدحیہ اور ہجویہ مثنوی۔ میر کی مثنوی کو فن کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’میر کی مثنویوں کو اگر فن کی کسوٹی پر پرکھئے تو بہت مایوسی ہوگی۔ نہ ان کا اپنا کوئی پلاٹ ہے، نہ حسن زنانہ اور حسن مردانہ میں کوئی امتیاز ہے۔ دونوں ہی پری وش، ماہ تمثال، نازک اندام، نزاکت کی جاں، غارت گردی و ایماں نظر آتے ہیں۔ فرق صرف تذکیر و تانیث کا ہے۔ یہ دونوں کبھی خوش قسمتی سے یکجا ہوجاتے ہیں تو گلہ و شکوہ میں وقت گزار دیتے ہیں۔ مانا کہ وصل کا وہ مقصد جس کی تصویر کشی دوسروں نے کی ہے یقینی نہایت غیر شریفانہ بات اور بو الہوسی ہے جس کے لیے عشق کا لفظ استعمال کرنا عشق کی توہین اور عشق کا مضحکہ اڑانا ہے ‘‘۔ (۱۱)
بہار کے ناقدین میں پروفیسر عبد المغنی کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ پروفیسر موصوف مشرقی تہذیب و تمدن اور اسلامی ثقافت کے دلدادہ تھے، ان کی اصل شناخت اقبال شناس کے طور ہے، لیکن انہوں نے اقبالیات کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا ہے اور تنقید کے دامن کو ثروت مند کیا ہے۔ میرؔ شناسی کے حوالے سے ان کی کتاب ’’میر کا تغزل‘‘ اہمیت کی حامل ہے۔ یہ پہلے پہل خدا بخش لائبریری جرنل میں شائع ہوئی ہے اس کے بعد کتابی شکل میں خدا بخش پبلک اورینٹل لائبریری نے ہی ۲۰۰۰ء میں شائع کیا۔ علامہ اقبال پر نصف درجن اور مرزا غالبؔ پر دو کتابیں لکھنے کے بعد پروفیسر عبد المغنی کو احساس ہوا کہ میر تقی میرؔ پر بھی لکھنا چاہئے، چنانچہ انہوں نے یہ تصنیف رقم کی۔ اس کتاب میں عبد المغنی نے آٹھ مختلف عناوین کے ذیل میں میرؔ کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ میرؔ شناسی بالخصوص میرؔ کی عشقیہ شاعری اور المیہ نگاری کے تعلق سے بہت زیادہ بے راہ روی اختیار کی گئی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’بہر حال میرؔ ایک شاعر تھے اور دور زوال میں ابھرے تھے، جب محبت اور اس کے تصوف کا دور دورہ تھا۔ ممکن ہے نوجوانی میں ان سے کچھ لغزشیں بھی ہوئی ہوں مگر وہ جنس زدہ ہرگز نہیں تھے۔ اس لیے ان کے اشعار میں جنسی معانی کی تلاش تنقید کی بے راہ روی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میرؔ کی شاعری میں مجازی سے زیادہ حقیقی عشق کے اشارے اس حد تک ہیں کہ انہوں نے گویا ایک فلسفے کے طور پر محبت ہی کو ہستی کے ظہور کا منبع و محرک قرار دیا ہے اور آفاق میں ظلمت سے نور کی آفرینش کو محبت کا کارنامہ بتایا ہے‘‘۔ (۱۲)
بہار میں میر شناسی کے حوالے سے پروفیسر شکیل الرحمٰن کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ شکیل الرحمٰن ادب میں جمالیات کے مرد آہن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے امیر خسروؔ، غالبؔ اور اقبالؔ وغیرہ کی جمالیات پر باضابطہ کتابیں لکھی ہیں۔ میر شناسی کے حوالے سے ان کی کتاب ’’میر تقی میر کی جمالیات‘‘ ہے، جس میں انہوں نے میرؔ کی جمالیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ شکیل الرحمٰن کہتے ہیں کہ میر کی شاعری عشق کے جذبے کی ایک ایسی شاعری ہے کہ جسے ٹھٹھک کر دیکھتے رہنے کی خواہش ہوتی رہتی ہے۔ کتاب کے شروع میں انہوں نے ہندوستانی جمالیات ’’شرنگارس‘‘ کا ذکرتے ہوئے میرؔ کی شاعری کا جائزہ اسی نقطہ نظر سے لیا ہے۔ ان کی نگاہ میں میرؔ شرنگاررس کے ممتاز شاعر ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں:
’’میر تقی میرؔ شرنگاررس کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔ ۔۔۔۔۔ میر تقی میرؔ کی غزل تڑپتے ہوئے زخمی، قتل ہوتے، عشق کے مارے ہوئے عاشق کی بھی کہانی ہے اور عشق اور جنس کی جبلت کی کشش اور ان کی جانب جھکاؤ کا بھی فسانہ ہے۔ عشق شرنگار کا بنیادی جذبہ ہے اور میرؔ کی شاعری عشق کے جذبے کی ایک ایسی شاعری ہے جسے ٹھٹھک کر دیکھتے رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ میرؔ کا تجربہ بھی یہی ہے کہ عشق ختم کردیتا ہے، جو محبت میں گرفتار ہوا وہ گیا‘‘۔ (۱۳)
پروفیسر شکیل الرحمٰن کی مذکورہ کتاب میر شناسی کے باب میں ایک اضافہ ہے، جس میں انہوں نے ان تمام پہلوؤں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جو فلسفہ جمال کے پیش نظر اہم ہوسکتے ہیں۔ میرؔ شناسی کے سلسلے میں یہ اہم کڑی ہے۔
اردو شعرا میں غالبؔ، اقبالؔ اور میرؔ تین ایسے گوہر آبدار گزرے ہیں، جن کی شعریات اور بوطیقا پر سب سے زیادہ ناقدین ادب نے زور آزمائی کی ہے۔ حتی کہ غالیبات، اقبالیات اور میریات نے ایک طرح سے ایک صنف کا ہی درجہ حاصل کرلیا ہے۔ البتہ غالبؔ و اقبالؔ کی بہ نسبت میرؔ پر قدرے کم ناقدین نے نگاہ ڈالی ہے، لیکن جس قدر بھی ہے اس سے میر کے کلام کے محاسن اور اس کی مختلف جہتوں کی تفہیم ہوجاتی ہے۔ دیگر اصناف کی طرف بہار کے ناقدین نے بھی عہد تذکرہ نگاری سے لیکر جدید تنقید تک میر شناسی کے حوالے سے قابل قدر سرمایہ چھوڑا ہے۔
حوالہ جات
(۱) بہار میں اردو تنقید، اعجاز علی ارشد، دی آرٹ پریس، پٹنہ، ۱۹۸۱ص:۱۲
(۲) دو تذکرے: شورش عظیم آبادی، عشقی عظیم آبادی، (جلددوم) مرتب کلیم الدین احمدص:۱۹۰
(۳) دو تذکرے: شورش عظیم آبادی، عشقی عظیم آبادی، (جلددوم) مرتب کلیم الدین احمدص:۱۹۴
(۴) میر تنقید: تذکروں سے عصر حاضر تک، ڈاکٹر ریشماں پروین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۹ء، ص۳۴
(۵) دو تذکرے: شورش عظیم آبادی، عشقی عظیم آبادی، (جلددوم) مرتب کلیم الدین احمدص:۱۹۰
(۶) کاشف الحقائق معروف بہ بہارستان سخن، امداد امام اثر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ۱۹۹۸ء، ص۴۱۷
(۷) کاشف الحقائق معروف بہ بہارستان سخن، امداد امام اثر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ۱۹۹۸ء، ص۵۸۰
(۸) اشعار میر، بیدل عظیم آبادی، لالہ رام نرائن لعل بکسیلر، الہ آباد، ۱۹۳۵، ص۱۶
(۹) اردو شاعری پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ، ۱۹۸۵ء، ص۱۳۰
(۱۰)میر، قاضی عبد الودود ، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ،بہار، ۱۹۹۵ء۔ ص۲
(۱۱) میر اور مثنویات میر، وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، ۲۰۰۳۔ ص۱۰۳
(۱۲) میر کا تغزل، پروفیسر عبد المغنی، خدا بخش پبلک اورینٹل لائبریری، پٹنہ، ۲۰۰۰؍، ص۴۔۵
(۱۳) میر تقی میر کی جمالیات، شکیل الرحمٰن، عرفی پبلیکیشنز، ہریانہ، ۲۰۱۱ء، ص۷۔۸
(یہ مضمون ’’اردو جرنل 15‘‘ 2024 میں شائع ہوا ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں