بدھ، 1 جون، 2016

ابنائے قدیم مدرسہ اسلامیہ شکرپور کی پہلی میٹنگ اختتام پذیر

نظیم ابنائے قدیم مدرسہ اسلامیہ شکرپور کی پہلی میٹنگ بحسن وخوبی اختتام پذیر 
درجنوں فضلائے شکرپور نے باہم متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا اور چار نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا 


دربهنگہ ضلع کے شکرپور بهروارہ میں واقع دینی ادارہ مدرسہ اسلامیہ ریاست بہار کے ممتاز مدارس میں شمار کیا جاتا ہے، تعلیمی میدان میں اس کی خدمات بیش بہا اور قابل تعریف ہیں، جس کا اندازہ ملک وبیرون ملک پهیلے اس کے فضلا کے روشن کارناموں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے - گزشتہ شب  مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور دربهنگہ میں مدرسہ اسلامیہ کے درجنوں قدیم وجدید فضلا کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی - میٹنگ کا افتتاح قاری شاہد ضیا کے تلاوت کلام پاک سے ہوا، وہیں مولانا خورشید بردی پوری و مولانا احمد حسین قاسمی بردی پوری نے بارگاہ رسالت مآب میں نذرانہ عقیدت پیش کیا- میٹنگ کی صدارت مولانا ظفر امام نستوی قاسمی نے کی- مولانا احمد حسین قاسمی نے میٹنگ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس میٹنگ کا مقصد ایک تنظیم کی بنیاد رکهنی ہے، ایک جماعت بنانی ہے اور ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرنا ہے جس سے سماج کے اندر تعلیمی، معاشرتی اور رفاہی میدان میں ایک انقلاب لایا جاسکے، اس کے تئیں لوگوں میں بیداری لائی جاسکے- مولانا خالد ضیا صدیقی نے تنظیم کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک کام انفرادی طور پر یا کوئی حرکت فرد واحد سے اتنا متاثر نہیں کرتی اور اس کا نتیجہ اتنا بارآور نہیں ہوتا جتنا کہ کسی تنظیم یا جماعت کے اجتماعی کام سے ہوتا ہے - وہیں مولانا دبیر قاسمی نے تنظیم و جماعت کی اہمیت و افادیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی -
میٹنگ میں متعدد امور پر غور وفکر کیا گیا اور باتفاق مندرجہ ذیل چارنکاتی لائحہ عمل مرتب کیا گیا -
1__ مدرسہ اسلامیہ کی ہمہ جہت خدمت اور تعاون 
2__ مدرسہ کے فضلا سے باہمی ربط اور ان کا حسب حال تعاون 
3_ باہم علمی و تحقیقی کاموں کی تقسیم وتحریک 
4_ تنظیم کے پلیٹ فارم سے مختلف علاقوں میں دینی ورفاہی خدمات اور معاشرے میں تعلیم کا فروغ 
میٹنگ کے شرکا میں مولانا ظفر امام، مولانا خالد ضیا ندوی، مولانا شاہد وصی، خورشید احمد، مولانا محمود الحسن، مولانا شاہد ضیا، مولانا سرفراز احمد، مولانا شافع عارفی، مولانا دبیر احمد، مولانا نعمان احمد، مولانا احمد حسین، مولانا عارف اقبال، مولانا سفیان احمد، مولانا عمر عالم، مولانا منت اللہ، مولانا مبین احمد سعیدی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں -
میٹنگ میں شریک احباب مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے 

میٹنگ میں شریک احباب مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے 























میٹنگ کی جذباتی رپورٹ ::------------ جو مولانا خالد ضیا الندوی کے رشحات قلم سے نکلی۔۔ آپ بھی ملاحظہ کریں 

   دل ونظر کی جان تھا وہ دور جو گزر گیا 

   احباب گرامی قدر!
     
    "احباب ملن تقریب" کے حوالے سے آپ کو شدت سے انتظار ھے کہ یہ تقریب کیسی رھی؟ کتنی کامیاب رھی؟ تو اس حوالے سے  اصل رپورٹ تو انشاءاللہ شاھد وصی بھائی آپ کے سامنے پیش کریں گے ـ 
    مجھے صرف اس امر کااظہار کرنا ھے کہ احباب سے مل کر تجدید ملاقات اور باھم تبادلۂ خیال کی لذت کو ھم الفاظ کے پیکر میں ڈھال نہیں سکتے ـ مبین بھائی کا حسن انتظام، شافع بھائی کے چٹ پٹے تبصرے، عارف ودبیر اور شاھد بھائیوں کی بزم ادب، اور سب سے بڑھ کر احمد بھائی کی" مزاحیہ محفل" نے ھم سبھوں کو " عالم کثیف " سے " عالم لطیف " میں منتقل کردیا تھا ـ 
   سب سے زیادہ مسرت اس بات کی ھے کہ حضرت ناظم صاحب مدظلہ نے بے انتہا قلبی مسرت کا اظہار فرمایا، اور آئندہ مادرعلمی شکرپور کو ضیافت کاموقع بخشنے کی بات ان الفاظ میں کہی : 

' اے آمدنت باعث خوش بختئ ما ' اور " چشم ماروشن " ـ 
   
       آج حضرت قاری صاحب دامت برکاتہم  بھی بہت شگفتہ تھے، ان کی مختصر ملاقات بھی ادبی محفل میں تبدیل ھو گئی، احباب ملن تقریب کے نام پر برجستہ یہ شعر پڑھا:
    امیر جمع ھیں احباب درد دل کہہ لے // پھر التفات دل دوستاں رھے نہ رھے ـ 
     گفتگو سے ایسا محسوس ھورھاتھا کہ وہ اس مبارک اقدام کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے استقبال کررھے ھوں ـــ آئندہ منظم اور تعمیری انداز میں اس تنظیم وتحریک کو سمت مستقیم کی طرف بڑھانے کامشورہ دیا، اور ھر طرح کے ممکنہ تعاون کی یقین دھانی بھی کرائی، ان کی ساری گفتگو کا حاصل بس یہی تھا : 

 ' پیوستہ رہ شجر سے امید بہاررکھ '

تری محفل سے ھم آئے، مگرباحال زار آئے // تماشاکامیاب آیا، تمنا بے قرار آئی 

     واقعی یہ تقریب تاریخ کا ایک حصہ بن گئی،  بردی پور کی یہ شب مدتوں یادرکھی جائے گی ـــ مغرب بعد احباب نے ناشتے کے دوران بہت خوشگوار ماحول میں "قہقہے اور چہچہے" کے ذریعہ محفل کو زعفران زار بنائے رکھا ، جس میں احمد بھائی، مبین بھائی، اور شافع بھائی کی طبیعت بہت زوروں پر تھی ـــ بقیہ احباب بھی بقدر ظرف حصہ لیتے رھے، اور یاد ماضی کے دریچے سے جھانکتے رھے،  مادرعلمی کے نادر واقعات اور اس کے احاطے میں بیتے ھوئے لمحات کو پیش کرکے محفل کا لطف دوبالا کرتے رھے: 

وہ لعل ولب کے تذکرے، وہ زلف ورخ کے زمزمے // وہ کاربار آرزو، وہ ولولے، وہ ہمہمے 
دل ونظر کی جان تھا، وہ دور جوگزرگیا // نہ اب کسی سے دل لگے، نہ اب کہیں نظر جمے 
سمند وقت جاچکا، رکاب ڈھونڈتا ھوں میں // جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ھوں میں  
   
عشاء بعد کی نششت کافی طویل رھی، تعارفی نششت کے بعد تقریبا ساڑھے بارہ بجے تک سنجیدہ ماحول میں گفتگو ھوتی رھی، مختلف امور پر بحث ھونے کے بعد چار امور طے پائے جو انشاءاللہ شاھد بھائی پیش فرمائیں گے ـ 

     مجلس کے اختتام پر ایک پرتکلف عشائیہ کا بھی نظم تھا، بریانی بہت زیادہ ٹیسٹ فل اور لذیذ بنی تھی، ماشاءاللہ احباب نے حق واجب سے زیادہ  حق وصول کرنے کی کوشش کی ــ 
    
    پھر بعض احباب محو خواب ھوگئے اور کچھ احباب نے فجر تک اپنی محفل جمائے رکھی، جس میں ھرطرح کی گفتگو ھوتی رھی، احباب گاھے قہقہے لگاتے، کبھی سنجیدہ ھوجاتے، ماضی کے تڑپانے والے واقعات جب اپناروزن کھولتے تو طبیعت بیقرار ھواٹھتی، اور جب مادرعلمی کا " تذ کرۂ بہار " نکل آتا تو طبعاً خوشیاں اپنی جلوہ فروشیوں کا پیغام بھیجتیں ـ 
    
   بعض احباب کی کمی شدید طور پر محسوس کی گئی، یوں مجموعی طور پر مادرعلمی کے " کریم " جمع تھے ـ 
    صبح صبح ناشتے کے بعد احباب جب رخصت ھونے لگے تو دل رونے لگا، عجیب سی کیفیت طاری تھی، کیفیات کے اظہار کے لئے ھم چند اشعار کا سہارا لیتے ھیں  کہ وہ کسی قدر ترجمانی کرسکتے ھیں :

آنکھوں میں بس کے دل میں سماکر چلے گئے // خوابیدہ زندگی تھی جگاکر چلے گئے 

آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے // اک آگ سی وہ اور لگاکر چلے گئے

لب تھرتھر کے رہ گئے لیکن وہ اے جگر // جاتے ھوئے نگاہ ملاکر چلے گئے 

           اور
  
  ھم روز وداع اس سے ھنس ھنس کے ھوئے رخصت // رونا تھا بہت ھم کو، روتے بھی تو کیا ھوتا

   جودل پہ گزرتی ھے، کیا تجھ کو خبر ناصح // کچھ ھم سے سنا ھوتا، پھرتونے کہا ھوتا 

          اور

نہیں بھولتا اس کی رخصت کاوقت // وہ رورو کے ملنا بلاھوگیا

سماں کل کا رہ رہ کے آتا ھے یاد // ابھی کیاتھا؟ اور کیا سے کیا ھوگیا
          
             اور
  
  دل کی بستی میں جلاکرتے ھیں یادوں کے چراغ // یوں تو جانے کو چلے جاتے ھیں جانے والے ـ 

   اخیر میں ھم سبھوں کو شاھد وصی بھائی کا شرمندۂ احسان ھونا چاھیئے کہ  انہوں نے بکھرےاحباب کو ایک لڑی میں پرودیا، مبین بھائی اور ان کے مدرسے کے اساتذہ اور طلبا کا بھی شکر واجب ھے کہ انہوں نے راحت وآرام کی ممکنہ شکل میں کوئی کوتاھی نہیں برتی، اور ضیافت کا حق ادا کر کے رکھد یا ــ 
    اللہ تعالی سے دعا ھے کہ اس اجتماع کو بامقصد، ثمر آور اور نتیجہ خیز بنادے اور آئندہ بہت جلد ملاقات کی اور اچھی شکل عطافرمائے، آمین ـ 

              محمد خالد ضیاء صدیقی
                            ٢٠١٦/٥/٢٧ء

کوئی تبصرے نہیں: