اتوار، 13 دسمبر، 2015

فیس بک ٹیگیا اور واٹس ایپ گروپیا

آپ نے تکلیف دہی اور ایذا رسانی کے ہزارہا واقعات سنے ہوں گے، سینکڑوں حادثات اور واقعات سے آپ بذات خود نبرد آزما ہوں گے۔ آج کی اس رنگ برنگی دنیا اور لمحہ لمحہ بدلتی اشیاؤں میں ایذا رسانی، سمع خراشی اور مکدرات پیدا کرنے والے آلات بھی اور حرکتیں بھی طرح طرح کی شکلیں اختیار کرتی جارہی ہیں۔
فی الوقت فیس بک ٹیگیا اور واٹس ایپ گروپیا  دہشت اور ایذا رسانی کا سب سے موثر اور زود اثر ہتھیار ہے۔اگر آپ کسی کو حد درجہ پریشان کرنا چاہتے ہیں اور اس کے قوت فیصلہ کو مضمحل اور مکدر کرنا مقصود ہے تو اس کے نمبر کو دس پندرہ نام نہاد ارباب دانش کے گروپ میں شامل کردیجئے اور ان کے فیس بک ٹائم لائن پر دنیا جہان کی واہیات ٹیگ کردیجئے۔آپ یقین جانئے یا تو وہ شخص پاگل ہوجائے گا یا انٹرنیٹ کی وادی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے خیرباد کہہ دے گا۔
اللہ بھلا کرے مارک زبرگ اور واٹس ایپ کے بانی کا کہ ان کے آلہ سماجیات نے دنیا کے مسائل حل کئے ہوں یا نہ کئے ہوں۔سماجی تعلقات اور باہمی روابط میں ان کے ذریعہ استحکام آیا ہو یا پہلے سے زیادہ دوری در آئی ہو۔کم سے کم اتنا تو فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے مصلحان قوم، ارباب دانش اور نقادوں کا ایک بے ہنگم جم غفیر پیدا ہوگیا ہے۔پہلے گلیوں کے نکڑ پر یا چائے کی دکانوں میں یہ نام نہاد ناقد و مصلح ڈیرہ جمائے رہتے تھے اب سب کے سب واٹس ایپ اور فیس بک پر آدھمکے ہیں۔
آپ نے چناوی ریلیوں اور انتخابی جلسوں میں سیاست دانوں کی زبانی بلندبانگ دعوے اور ناقابل یقین وعدے اور حماقت بھری باتیں ضرور سنی ہونگی۔یہ تمام باتیں اور بے کار کی چیزیں اب بآسانی یہاں دستیاب ہیں۔یہاں گالیوں اور بدزبانی کے ایسے ایسے کرشمے اور حشر سامانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ اللہ کی پناہ اگر کسی کے سامنے وہ گالیاں اور ہفوات بک دی جائیں تو ان کے کان کے پردے پھٹ جائیں اور ان کی سات پشتوں کی روحیں چیخ پڑے۔
ان گروپ کے نام بھی قابل دید ہوتے ہیں، بزم سخن، مرکز اصلاح امت، ارباب دانش و بینش، گلستان علم و ادب وغیرہ وغیرہ۔ان کے نام جتنے خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتے ہیں ان کے مشمولات اور ان کے ارکان اتنے ہی عقل سے پیدل نظر آئیں گے۔ ادبی بحثیں اتنی غیر ادبی لہجے اور زبان میں ہوتی ہے کہ حالی شبلی سے لے کر احتشام، اختر، سرور اور کلیم کی روحیں شرمندہ ہوجاتی ہیں۔یہ تو بھلا ہے کہ ان لوگوں کے عہد میں یہ سماجی آلات نہ تھے ورنہ کلیم الدین احمد کو اردو سماجی گروپیا پر ایک نظر نامی کتاب لکھنی پڑتی اور حالی کو مقدمہ فیس بک اور شبلی کو موازنہ فیس بک اور واٹس ایپ تخلیق کرنے پڑتے۔
ادبی کے علاوہ سماجی، ملکی اور ملی مصلحین و بہی خواہان کی تعداد بھی کافی ہے۔ہر گروپ میں ایسے لایعنی مشورے اور لغو تجویزیں پیش کی جاتی ہیں کہ الاماں والحفیظ۔ فیس بکئے ادیبوں اور واٹس ایپی مصلح کو آپ برساتی مینڈک سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔
ان سب کے علاوہ جب واٹس ایپ کے متعدد گروپوں میں بیک وقت میسیج آتے ہیں تو ٹوں ٹوں اور پوں پوں کا ایسا کریہہ سر نکلنا لگتا ہے کہ تان سین اگر زندہ ہوتا تو اپنی تان کو اپنے سر پر پھوڑ کر خودکشی کرلیتا۔
اللہ تمام لوگوں کو فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں سے بچائے۔

کوئی تبصرے نہیں: