Clik Here To Dowloand PDF File
حجة الوداع کے موقع سے میدان عرفات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو خطاب فرمایا تھا اس کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ امت کے اتنے بڑے جم غفیر سے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطاب تھا ، آپ اپنی اونٹنی قصواءپر سوار تھے ، اور سیدنا بلال صاس کی نکیل تھامے ہوئے تھے ، اس کا لعاب انکے کندھے پر بہہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لوگوں کو خاموش کرانے کا حکم دیا ، جب انہوں نے مجمع کو خاموش کرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لوگو! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں۔تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی، اور اس شہر کی حرمت ہے۔سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاو ¿ں تلے روند دی گئی، جاہلیت کے خون بھی ختم کردئے گئے ، اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں ، وہ ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے …. یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ ان ہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا …. اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے۔ہاں عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے ، اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو آنے نہ دیں جو تمہیں گوارا نہیں ، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مارسکتے ہو ، لیکن سخت مار نہ مارنا ، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاو۔اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔“(مسلم )
”لوگو ! یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں، لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرنا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، اور خوشی خوشی اپنے مال کی زکاة دینا ، اپنے پروردگار کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا، ایسا کروگے تو اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوگے۔“( ابن ماجہ، ابن عساکر ، رحمة للعالمین1/263)
”اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، تو تم لوگ کیا کہوگے ؟ صحابہ ثنے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا : ” اے اللہ! گواہ رہ “۔( مسلم )
اس کے بعد یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی :
” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ، اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا “۔( مائدہ :3)سیدنا عمر بن خطاب ص نے جب یہ آیت سنی تو رونے لگے ، دریافت کیا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا : اس لیے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے۔ ( بخاری )خطبہ کے بعد سیدنا بلال ص نے اذان دی اور پھر اقامت کہی، اسکے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہرکی نماز قصر کرکے پڑھائی ، پھر اقامت کہی گئی تو عصر کی نماز قصر پڑھائی۔
حضرت ابوبکرة نفیع بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یوم النحر ( دس ذی الحجہ ) کو خطبہ دیا ، جس میں ارشاد فرمایا :
” زمانے کی گردش آج ٹھیک اسی مقام پر پہنچ چکی ہے ، جس دن کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا ، سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ، جن میں سے چار حرمت والے ہیں ، تین مہینے پے در پے آتے ہیں اور وہ ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم ہیں اور چوتھا قبیلہ مضر کا ”رجب“ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ ( بخاری ومسلم )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پوچھا کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ آپ ااس کا کوئی اور نام رکھیں گے ، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں !پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا یہ بلدہ (مکہ ) نہیں ہے ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :اچھا تویہ دن کونسا ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے ، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا یہ یوم النحر(قربانی کا دن یعنی10 ذی الحجہ) نہیں ہے ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا تو سنو کہ تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔ اور تم لوگ بہت جلد اپنے پرور دگار سے ملوگے ، اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا،لہٰذا دیکھو ، میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔بتاو ¿ کیا میں نے تبلیغ کردی ؟ صحابہ ث نے کہا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہ۔جو شخص موجود ہے وہ غیر موجود تک میری باتیں پہنچادے، کیونکہ بعض وہ افراد جن تک یہ باتیں پہنچائی جائیں گی، وہ بعض موجودہ سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔(صحیح بخاری ، باب الخطبة ا ¿یام منٰی )
انسانیت کا عالمی منشور
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ¿ حجة الوداع سے یہ باتیں مستفید ہوئیں :
(1) بے گناہوں کے خون اور ناحق کسی کے مال کو ہتھیالینے کی حرمت۔ اور اس میں انسانی جانوں ، اور شخصی ملکیت کی حفاظت کا پیغام ، اور ناکام اشتراکیت کا خاتمہ ہے جو ملحد کمیونزم کی ایک شاخ ہے ، جس کے باطل ہونے کی حقیقت کو لوگ جان گئے اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ، حتّٰی کہ انہوں نے اسکے دام تزویر سے نجات حاصل کرلیا۔
زمانہ ¿جاہلیت میں کئے گئے تمام کاموں اورخون کا بطلان، اور یہ کہ اس دور کے قتل کا قصاص اب زمانہءاسلام میں نہیں لیا جائے گا۔
(2) سود لینے اور دینے کی حرمت ، اور یہ اصل مال پر کچھ زائد رقم لینے کو کہتے ہےں ،چاہے وہ رقم کم ہو یا زیادہ۔
(3) لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے والے کےلئے ضروری ہے کہ اپنی ذات سے ابتدا کرے ، جیسا کہ آپ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے بچے کے خون ، اور اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سود کو ختم کردیا۔
(4) حقوقِ نسواں کی حفاظت ، اور انکے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت۔ جبکہ بے شمار احادیث مبارکہ میں عورتوں سے حسن سلوک کی تاکید آئی ہے ، نیز اس میں انکے حقوق بیان کئے گئے ہیں ، اور اس میں کوتاہی سے ڈرایا گیا ہے۔
(5) نکاحِ شرعی سے عورتوں کی عصمتوں کو حلال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ فرمان باری ہے : ” تم اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو “۔( النساء:3)
(6) بیوی کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی ایسے شخص کو اپنے گھر میں داخل کرے ، جسے اس کا شوہر پسند نہیں کرتا ، چاہے وہ اجنبی مرد ہو ، یا عورت۔اگرچہ کہ وہ بیوی کا رشتہ دار ہی ہو، حتی کہ اس کے محارم میں سے بھی کیوں نہ ہوں۔ یہ ممانعت ان تمام لوگوں کو شامل کرلیتی ہے، جیسا کہ امام نووی نے اپنی شرح مسلم میں ذکر کیا ہے۔
(7) شوہر کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اس وقت مارے جب کہ وہ مذکورہ باتوں میں اس کی مخالفت کرے ، لیکن یہ مار سخت نہ ہو اور نہ ہی نشان ڈالنے والی ہو ، اور چہرے سے بچا جائے ، اور نہ ہی چہرے کے عیوب ذکر کئے جائیں ، اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خلقت ہے ، اس کو برا بھلا کہنا گویا رب العالمین کی خلقت میں عیب نکالنا ہے ، جسکی احادیث میں نہی آئی ہے۔
(8) خطبہ میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھام لینے کا حکم ہے، جس میں مسلمانوں کی عزت و نصرت ہے ، اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے پکڑ لینے کی ترغیب ہے جو دراصل قرآن کی تشریح ہے ، اور یہ کہ جب بھی مسلمان ان دونوں سے بے اعتنائی برتیں گے ذلیل ورسوا ہوں گے ، اور یہ بھی کہ آج مسلمانوں کی کمزوری کا سبب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو چھوڑ دینا ہے ، اور اللہ کی مدد انکے اس وقت تک شامل حال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ ان دونوں کی طرف رجوع نہ کریں۔
(9) صحابہ کرام نے گواہی دی کہ رسول اکرم ا نے رسالت کو پہنچایا ، امانت کو ادا کردیا اور امت کی خیر خواہی بدرجہ ¿اتم فرمائی۔
(10) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف انگشتِ شہادت بلند کرکے اللہ تعالیٰ کو اس بات پر گواہ بنانا کہ آپ انے اپنی رسالت کی امانت کو پہنچادیا، نیز اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں اپنے عرش پر مستوی ہے۔
(11) خطبہ حجة الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال افعال اور تقریر (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی ہو )سے اعمال حج سیکھنے کا حکم ہے۔
اس میں یہ لطیف اشارہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلد ہی اپنے صحابہ کرام کو الوداع کہہ کر اپنے رب کی رحمت میں چلے جانے والے ہیں۔
خطبہ میںمسلمانوں کے خون ، مال اور عزت وآبرو کی اہمیت بیان کی گئی ہے ، اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی حرمت اللہ کے پاس شہر مکہ ، خانہ کعبہ ، ماہ ذی الحجہ اور یوم النحر کی طرح مقدس و محترم ہے۔
(12) مسلمانوں کے درمیان آپسی قتل وخون اور خانہ جنگی سے ڈرایا گیا ہے ، اوراسے کفرکاکام بتلایاہے ، لیکن اس جرم کے ارتکاب سے مسلمان اسلام سے خارج نہیں ہوتا ، بلکہ مسلمان رہتے ہوئے کفریہ حرکت کا مرتکب ہوتا ہے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ہے :” مسلمان کو گالی دینا فسق وفجور کی علامت ہے ، اور اس سے لڑنا کفر ہے“۔ ( متفق علیہ )
بعض لوگوں نے کفر عملی کو کفر اعتقادی قرار دے کر، مسلمانوں کو کافر قرار دینے ، اور کفر کے فتوے جاری کرنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے ، یہ سراسر بےہودہ کام ، لغو حرکت اور شریعت کی نگاہ میں قابل نفرت جرم ہے ، دوسروں کو کافر قرار دینے والوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کلمہ ¿ کفر ان کی طرف لوٹ آئے اور اسی پر ان کا خاتمہ ہو۔ کفر اعتقادی اور کفر عملی میں فرق ہے ، انسان کفر اعتقادی سے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ، جہاں تک کفر عملی کا معاملہ ہے اس سے مسلمان کافر نہیں ہوتا بلکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔