جمعرات، 18 اکتوبر، 2012

اسلام میں عید کا فلسفہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم
 اسلام ایک دین فطرت ہے۔ اسکے تمام اوامر اور احکام انسانی فطرت اور نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ ہر انسان فطری طور پر اپنے اندر خوشی اور غمی کے جذبات رکھتاہے اور اپنے اپنے موقع پر گرد وپیش سے متاثر ہوکر ان جذبات میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور انکے اظہار کیلئے مناسب وقت اور موقع کا متلاشی رہتاہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جس میں اس قوم کے لوگ اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانے کھاتے اور مختلف طریقوں سے اپنی مسرت وخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ خوشی اور غمی میں سب کچھ جائز ہے۔ اسلام اس نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات کا اظہار اس حد تک کرے کہ اللہ اور اسکے رسول کے احکام پامال نہ ہوں اور کتاب وسنت کی تعلیمات کی مرکزی حیثیت بر قرار رہے۔ اگر کوئی شخص خوشی یا غمی میں جذبات سے مغلوب ہوکر احکام الہیہ نظر انداز کرکے اللہ اور اسکے رسول کو فراموش کردیتا ہے تو وہ انسان نہیں ہے۔ انسانیت کے نام پر بد نما داغ ہے۔ انسانی لبادہ میں حیوان ہے۔ اسے آدمی کہنا آدمیت کی تو ہین ہے۔
بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں۔ 
 ظفر آدمی اسکو نہ جانئے گا ، ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم وذکا 
 جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی ، جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
 اسلام نے انسان کی فطری خواہشات کو دبا نے یا ان پر قدغن لگانے کی بجائے اپنے اوامر ونواہی میں انہیں پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔اسلام انسانی خوشی میں حائل نہیں ہوتا بلکہ اسے مناسب طریقہ پر لطف اندوز ہونیکی اجازت دیتا ہے مگر وہ یہ نہیں چاہتا کہ انسان اشرف المخلوقات کے دائرے سے نکل کر جانوروں اور حیوانوں کی صف میں شامل ہو جا ئے۔ عید کی تقریبات سالانہ منانے کا حکم اور اسے عبادت کے رنگ میں رنگنے کے اندر اسلام کی یہی حکمت عملی کار فرماہے۔ اسلام یہ چاہتاہے کہ مسلمانوں کو عید کی خوشیاں مادر پدر آزاد ہوکر نہیں منا نی چاہئیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اور اطاعت کرکے اپنی عید کو عبادت اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنالینا چاہئے۔
کسی عر بی شاعر نے کیا خوب کہاہے ۔
 لیس العید لمن لبس الجدید 
انما العید لمن خاف الوعید
ترجمہ : عید اس کی نہیں ہے جس نے نئے کپڑے پہنے بلکہ عید تو اسکی ہے جس نے اللہ کا ڈر اور خوف اپنے اندر پیدا کیا۔
” اسلام میں عید کی سالانہ تقریبا ت کا آغاز“
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود مدینہ اور ان کے زیر اثر اقوام سا ل میں دومرتبہ عید مناتے اور خوشی کے اظہار کیلئے تقریبات منعقد کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان کی اتباع سے منع فرمایا اور اللہ تعالی کے حکم سے دو نئے دن مقرر فرمادئیے اور ان میں اسلامی طریقہ کے مطابق خوشیاں منانے کا حکم دیا۔

حدیث نبوی ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں کے باشندے دو تہوار مناتے تھے جن میں کھیل اور تماشے کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ کس قسم کے دو دن ہیں جو تم مناتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت سے یہ تہوار اسی طرح مناتے چلے آرہے ہیں۔ ا ن میں کھیل تماشے کرکے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالی نے انکے بدلہ میں ، ان سے بہتر دودن تمہارے لئے مقرر فرمادئیے ہیں اور وہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دودن ہیں۔ ( سنن ابی داو ¿د )
اس حدیث شریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کشکول گدائی لیکر با طل نظاموں کے در پہ بھیک مانگنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور مسلما ن قوم کا علیحدہ تشخص قائم کرتا ہے۔ سالانہ خوشی کے اظہار کیلئے اغیار کی اندھی تقلید کرتے ہوئے عید کے ایام ان سے مستعار لینے اور انکا دم چھلابننے کی بجائے اپنے ماننے والوں کو اپنے پاو ¿ں پر کھڑا کرتا ہے اور ان کیلئے عید کے مستقل ایام متعین کرتاہے اور اس بات کا سبق بھی ملتاہے کہ ” عید“ کا مقصد محض خوشی منا نا نہیں ہے بلکہ اسکے پس منظر میں ایک نظریہ کار فرماہے اور قربانی کی یاد مناتے ہوئے اپنی خوشی کو عبادت کے رنگ میں رنگناہے۔
رمضان کے مبارک مہینہ کی مبارک ”رات لیلة القدر “میں ”دستور انسانیت “ قرآن کریم کی شکل میں عطاکیاگیا جس کے شکرانے پر دن میں روزے اور رات میں تراویح کاحکم دیا گیا اور پھر مہینہ کے اختتام پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو انعامات سے نوازنے کیلئے جو دن مقرر فرمایا وہ ” عید الفطر“ ہے۔ روزے اور شب بیداری سے تقوی اور تعلق مع اللہ میں اضافہ ہوا اور گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی استعداد پیدا ہوئی۔ اللہ تعالی کی طرف سے افطار کی اجازت ملی اور گناہوںکو نیکیوں سے بد ل دینے کی خوشخبری ملی۔ ایمان والے کیلئے خوشیاں منانے کا اس سے بہتر موقع اور کونسا ہوگا ۔ اور ذی الحجہ کے مبارک مہینہ میں دس تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتلا ءاور آزمائش کی مشکل ترین اور آخری کڑی سے گزر تے ہوئے اپنے بڑھاپے کے سہارے ، لخت جگر، دعوت کے وارث اور مستقل جانشین کے ہاتھ پاو ¿ں جکڑ کر اسکی گردن پر چھری رکھ کر سچی وفاداری اور کامل تسلیم ورضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالی نے آپکو دنیا ئے انسانیت کے اس منفرد اور انوکھے امتحان اور عشق ومحبت کے فقید المثال مظاہرہ پر آپکی قربانی کو قبول کرتے ہوئے انسانیت کی امامت کے منصب پر آپکو فائز کیا تھا ۔ 
عید الاضحی کی خوشی در حقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قربانیوں سے بھر پور زندگی گزار کر صرف دنیا کی امامت وقیادت کے منصب پر ہی فائز نہیں ہوئے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ پیغام دے گئے کہ ظلم ونا انصافی سے کنا رہ کش ہوکر ، عدل وانصاف کا دامن تھام کر ، اعلاءکلمة اللہ کیلئے جان ومال کو قربان کرکے امامت کے اس منصب گراں مایہ کو ہر شخص حاصل کرسکتاہے اور عید الاضحی کے موقع پر مسلمان اسی عزم کو دہراتاہے۔ مسلمان کی عید اسی نظریاتی اساس کی حامل ہے اور آسمانی نظام حیات کے ساتھ سالانہ تجدید عہد وفا ہے۔
عید کو ” عید “ کیوں کہتے ہیں؟ 
” عید“ کا لفظ عاد یعود سے ماخوذ ہے۔ جسکے معنی ” لوٹنا ، دوبارہ آنا “ ہے۔ عید کو عید اسی لئے کہاجاتاہے کہ یہ دن ہرسال مسرت وشادمانی کا پیغام لیکر آتاہے۔ یا ” نیک فالی “ کے طور پر یہ لفظ استعمال ہوتاہے کہ ہر مسلمان کو اپنی زندگی میں ڈھیروں خوشیاں میسر آجائیں اور زندگی میں اسقدر برکت ہوکہ بار بار یہ دن دیکھنا نصیب ہو تارہے۔ عرب جب عید کے پر مسرت موقع پر آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے ” کلَّ عام وانتم بخیر ‘ ‘ کہتے ہیں یعنی ” عید کا دن ہر سال اس حالت میں دیکھنا نصیب ہوتارہے کہ آپ خیر وعافیت سے ہوں “ ان الفاظ میں درازی عمر کی دعا بھی ہے اور صحت وعافیت کی تمنا بھی۔
عید کے دن خوشی اور انبساط کا مسلمان مذہبی طور پر پابند ہے کیونکہ اس دن کو اللہ تعالی اور اسکے رسول نے خوشی کا دن قرار دیا ہے۔ عید کے دن کسی سیاسی یا گروہی مفادات کے پیش نظر عید منانے سے انکار کرنا یا اس مبارک دن کو” یوم سیاہ“ قرار دیکر غیر مسلم اقوا م کی طرح احتجاج کرنا محبوب خدا کے انتخاب پرا عتراض اور اسلامی تعلیمات پر اسی طرح عدم اعتماد کا اظہار ہے جس طرح عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ اپنی طرف سے کسی دن کو ” عید “ قرار دینا یا سکھوں ، ہندﺅں اور عیسایوں کے تہوار بنست ، ہولی ، دیوالی اور کرسمس وغیرہ کی تقریبات اور انکی خوشیوں میں شرکت در حقیقت پیغمبر اسلام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔

Clik Here to Dowloade PDF File