پیر، 31 دسمبر، 2012
بدھ، 5 دسمبر، 2012
انسانیت کا عالمی منشور
Clik Here To Dowloand PDF File
حجة الوداع کے موقع سے میدان عرفات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو خطاب فرمایا تھا اس کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ امت کے اتنے بڑے جم غفیر سے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطاب تھا ، آپ اپنی اونٹنی قصواءپر سوار تھے ، اور سیدنا بلال صاس کی نکیل تھامے ہوئے تھے ، اس کا لعاب انکے کندھے پر بہہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لوگوں کو خاموش کرانے کا حکم دیا ، جب انہوں نے مجمع کو خاموش کرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لوگو! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں۔تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی، اور اس شہر کی حرمت ہے۔سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاو ¿ں تلے روند دی گئی، جاہلیت کے خون بھی ختم کردئے گئے ، اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں ، وہ ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے …. یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ ان ہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا …. اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے۔ہاں عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے ، اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو آنے نہ دیں جو تمہیں گوارا نہیں ، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مارسکتے ہو ، لیکن سخت مار نہ مارنا ، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاو۔اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔“(مسلم )
”لوگو ! یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں، لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرنا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، اور خوشی خوشی اپنے مال کی زکاة دینا ، اپنے پروردگار کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا، ایسا کروگے تو اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوگے۔“( ابن ماجہ، ابن عساکر ، رحمة للعالمین1/263)
”اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، تو تم لوگ کیا کہوگے ؟ صحابہ ثنے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا : ” اے اللہ! گواہ رہ “۔( مسلم )
اس کے بعد یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی :
” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ، اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا “۔( مائدہ :3)سیدنا عمر بن خطاب ص نے جب یہ آیت سنی تو رونے لگے ، دریافت کیا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا : اس لیے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے۔ ( بخاری )خطبہ کے بعد سیدنا بلال ص نے اذان دی اور پھر اقامت کہی، اسکے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہرکی نماز قصر کرکے پڑھائی ، پھر اقامت کہی گئی تو عصر کی نماز قصر پڑھائی۔
جمعرات، 18 اکتوبر، 2012
اسلام میں عید کا فلسفہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام ایک دین فطرت ہے۔ اسکے تمام اوامر اور احکام انسانی فطرت اور نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ ہر انسان فطری طور پر اپنے اندر خوشی اور غمی کے جذبات رکھتاہے اور اپنے اپنے موقع پر گرد وپیش سے متاثر ہوکر ان جذبات میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور انکے اظہار کیلئے مناسب وقت اور موقع کا متلاشی رہتاہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جس میں اس قوم کے لوگ اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانے کھاتے اور مختلف طریقوں سے اپنی مسرت وخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ خوشی اور غمی میں سب کچھ جائز ہے۔ اسلام اس نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات کا اظہار اس حد تک کرے کہ اللہ اور اسکے رسول کے احکام پامال نہ ہوں اور کتاب وسنت کی تعلیمات کی مرکزی حیثیت بر قرار رہے۔ اگر کوئی شخص خوشی یا غمی میں جذبات سے مغلوب ہوکر احکام الہیہ نظر انداز کرکے اللہ اور اسکے رسول کو فراموش کردیتا ہے تو وہ انسان نہیں ہے۔ انسانیت کے نام پر بد نما داغ ہے۔ انسانی لبادہ میں حیوان ہے۔ اسے آدمی کہنا آدمیت کی تو ہین ہے۔
بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں۔
ظفر آدمی اسکو نہ جانئے گا ، ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی ، جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
اسلام نے انسان کی فطری خواہشات کو دبا نے یا ان پر قدغن لگانے کی بجائے اپنے اوامر ونواہی میں انہیں پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔اسلام انسانی خوشی میں حائل نہیں ہوتا بلکہ اسے مناسب طریقہ پر لطف اندوز ہونیکی اجازت دیتا ہے مگر وہ یہ نہیں چاہتا کہ انسان اشرف المخلوقات کے دائرے سے نکل کر جانوروں اور حیوانوں کی صف میں شامل ہو جا ئے۔ عید کی تقریبات سالانہ منانے کا حکم اور اسے عبادت کے رنگ میں رنگنے کے اندر اسلام کی یہی حکمت عملی کار فرماہے۔ اسلام یہ چاہتاہے کہ مسلمانوں کو عید کی خوشیاں مادر پدر آزاد ہوکر نہیں منا نی چاہئیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اور اطاعت کرکے اپنی عید کو عبادت اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنالینا چاہئے۔
کسی عر بی شاعر نے کیا خوب کہاہے ۔
لیس العید لمن لبس الجدید
انما العید لمن خاف الوعید
ترجمہ : عید اس کی نہیں ہے جس نے نئے کپڑے پہنے بلکہ عید تو اسکی ہے جس نے اللہ کا ڈر اور خوف اپنے اندر پیدا کیا۔
” اسلام میں عید کی سالانہ تقریبا ت کا آغاز“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود مدینہ اور ان کے زیر اثر اقوام سا ل میں دومرتبہ عید مناتے اور خوشی کے اظہار کیلئے تقریبات منعقد کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان کی اتباع سے منع فرمایا اور اللہ تعالی کے حکم سے دو نئے دن مقرر فرمادئیے اور ان میں اسلامی طریقہ کے مطابق خوشیاں منانے کا حکم دیا۔
پیر، 15 اکتوبر، 2012
جہیز اور آج کا ماحول
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
آج کے ماحول اور حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد بڑے ہی قلق اور افسوس سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روز بروز جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جا رہا ہے اور جو عورت کم جہیز لے جائے اس کو کوسنے سے لے کر ستانے، طلاق دینے، یہاں تک کہ جلانے اور مار ڈالنے تک کے واقعات سننے میں آتے ہیں۔ صد افسوس! ایک پاکیزہ رشتہ جسے رب کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقاصد کےلئے جاری کیا، جو عہد رسالت، عہد صحابہ اور عہد اسلاف میں بڑے پاکیزہ اور سادہ طریقہ سے عمل میں آتا رہا آج بے غیرت خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا ایک کاروبار سمجھ لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا علاج کیا ہے۔ اور سلسلہ میں عوام و خاص کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
جہیز کی حرص کیوں؟ہمیں اس سلسلہ میں پہلے غور کرنا ہو گا کہ جہیز کی کمی کی وجہ سے عورتوں کو ستانے والے جوان اور خاندانوں میں یہ حریصانہ طبیعت اور ظالمانہ جرا ¿ت کیسے پیدا ہوئی اور اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟
جواباً مختصر لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ حریصانہ طبیعت حب دنیا کی پیداوار ہے اور ظالمانہ جرا ¿ت دین سے دوری کا نتیجہ ہے بلکہ جارحانہ حد تک حب دنیا بھی دین سے دوری اور اس کے اصول و مقاصد سے بے تعلقی ہی کا شاخسانہ ہے۔اس لئے کہ جو یہ جانتا ہو کہ دین اسلام اور ہر معتدل قانون اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ آدمی اپنی کوشش و محنت سے جتنا چاہے مال کمائے مگر دوسرے کے مال کی طمع اور اسے اپنا مال بنانے کی حرص یقینا مذموم اور گھٹیا طبیعت ہی کی پیداوار ہے۔ جو آدمی ایسی طبیعت سے پاک ہو وہ کبھی بھی بیوی کے مال و دولت کا حریص نہیں ہو سکتا۔
جہیز کا مالک کون ہے؟ اسلامی نقطہ نظر سے تو جہیز کا سارا سامان جو بیوی شوہر کے گھر لائے تمام تر بیوی ہی کی ملکیت ہے۔ اس پر زکوٰة فرض ہو تو اس کی ادائیگی بیوی ہی کی ذمہ داری ہے۔ اور اس کا استعمال کوئی دوسرا اگر کرنا بھی چاہے تو بیوی کی رضا مندی اور اجازت ہی پر منحصر ہے۔ لیکن اس کے برخلاف جن خاندانوں اور جوانوں میں یہ عقیدہ جڑ پکڑ چکا ہے کہ ولہن کا سارا مال ہماری ملکیت ہے اور ہم اسے جیسے چاہیں استعمال کریں ان لوگوں کی دین اور اس کے مسائل و مقاصد سے دوری بالکل عیاں ہے۔
بدھ، 10 اکتوبر، 2012
جمعرات، 27 ستمبر، 2012
پیر، 24 ستمبر، 2012
حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
ولادت وسیادت:
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی سے قبل راجہ بھیم سنگھ نے ضلع مظفر نگر میں ایک قصبہ اپنے نام سے بسایا جو "تھا نہ بھیم"کہلایا۔پھر مسلمانوں کی آمد وسکونت پر اس کا نام "محمدپور"رکھا گیا، مگر یہ نام مقبول ومشہور نہ ہوا اور وہی پرانا نام معروف رہا ۔البتہ "تھانہ بھیم"سے تھانہ بھون ہوگیا۔ آگرہ شہر کے نواح میں واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنی مردم خیزی میں مشہور چلا آرہا ہے اور یہاں کے مسلمان شرفاء اہل شوکت وقوت اور صاحب فضل وکمال رہے ہیں۔مجدد الملۃ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے اجداد نے آج سے صدیوں قبل تھانیسرضلع کرنال سے نقل سکونت کرکے تھانہ بھون میں اقامت اختیار کی تھی۔آپ کے جد اعلی سلطان شہاب الدین والی کابل رہے ہیں اور سلطان غزنوی کی حکومت کے زوال کے بعد جذبہ جہاد کے تحت کئی بار ہندوستان پر حملہ کیا اور بامراد لوٹے ان کی اولاد میں شیوخ تھانہ بھون کے علاوہ حضرت شیخ مجدد الف ثانی ،شیخ جلال الدین تھانیسری اور شیخ فرید الدین گنج شکر جیسے کاملین پیدا ہوئے ہیں۔
آپ کے والد ماجد شیخ عبدالحق ایک مقتدر رئیس صاحب نقد وجائیداد اور ایک کشادہ دست انسان تھے فارسی میں اعلی استعداد کے مالک اور بہت اچھے انشاء پرداز تھے۔ایسے عالی خاندان میں جہاں دولت وحشمت اور زہد وتقوی بغل گیر ہوتے تھے حضرت مجدد الملت کی جامع شخصیت 5ربیع الثانی 1280ھ بمطابق 9ستمبر 1863ء کو ظہور پذیر ہوئی والد ماجد نے آپ کی تربیت بڑے ہی پیار ومحبت سے کی،تربیت میں اس بات کو خاص اہمیت دی کہ برے دوستوں اور غلط مجالس سے آپ دور رہے ،آپ کی طبیعت خود بھی ایسی واقع ہوئی تھی کہ کبھی بازاری لڑکوں کے ساتھ نہیں کھیلے بچپن سے مزاج دینی تھا،12سال کی عمر میں پابندی سے نماز تہجد پڑھنے لگ گئے تھے۔
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ
قصبہ نانوتہ،کاندھلہ،دیوبند اور تھانہ بھون مشہور علمی مراکز ہیں۔یہاں خاندانِ شیوخ فاروقی،صدیقی،عثمانی اور انصاری آباد تھے۔ یہ قصبے ہمیشہ سے بزرگوں اور مشائخ کے مسکن رہے ہیں۔حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا مولد اور وطن عزیز قصبہ نانوتہ ضلع سہارنپور ہے جو دیوبند سے بارہ میل مغربی جانب واقع ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔ تاریخی نام خورشید حسین اور تاریخ پیدائش شعبان ۱۲۴۸ھ ہے۔والد کا نام شیخ اسد علی بن غلام شاہ ہے،جونہایت پرہیزگار ،صاحبِ اخلاق اور صوم وصلوۃ کے پابند تھے۔
آپ بچپن ہی سے ذہین،محنتی اور سعادت مند تھے۔تعلیم کے دوران ہمیشہ اپنے ساتھیوں میں نمایاں رہے۔آپ نے قصبہ دیوبند میں فارسی،عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعدمولانا مملوک علی نانوتوی ؒ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اور محدث حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددی الحنفی ؒسے حدیث شریف کا دورہ پڑھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے مولانا احمد علی سہارنپوری الحنفی کے کتب خانے ’’مطبع احمدی‘‘میں کتابت کا کام شروع کردیا ۔ ساتھ ساتھ درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ، مولانا حکیم محمد صادق مرادآبادیؒ اور مولانا فیض الحسن گنگوہیؒ وغیرہ کو آپ نے زمانہ کتابت میں حدیث کی اکثر کتابیں پڑھائیں۔اسی زمانہ میں مولانا احمد علی سہارنپوریؒ نے بخاری شریف پر حاشیہ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔چوبیس پاروں کا حاشیہ تو حضرت سہارنپوری نے مکمل کیا تھا، آخر کے چھ پارے رہ گئے تھے۔وہ انہوں نے حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ذمے لگادئے۔مولانا نے ان کو لکھا اور قابل رشک لکھا۔
اس دوران آپ نے شیخ المشائخ،مجاہد کبیر حضرت مولانا حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرکے تصوف کی راہ اختیار کی ۔ ظاہری علوم کے علاوہ باطنی علوم ومعارف میں وہ مقام حاصل کرلیا جو ان کے زمانے میں واہب حقیقی نے ان کے لئے مخصوص کررکھا تھا۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی علمی قابلیت اور تقویٰ بے مثل وبے نظیر تھا۔ آپ کے مرشد حضرت حاجی صاحب ؒنے آپ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’ایسے لوگ کبھی پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے، اب مدتوں سے نہیں ہوتے۔‘‘ایک موقع پر حضرت حاجی صاحب نے یہ بھی فرمایا :’’اللہ اپنے بعض بندوں کو ایک لسان عطافرماتے ہیں۔چنانچہ حضرت شمس التبریز کے واسطے مولانا روم کو لسان بنایا تھا اور مجھ کو مولانا محمد قاسم عطا ہوئے جو میرے قلب میں آتا ہے بیان کردیتے ہیں۔‘‘ایک مرید کے لئے مرشد کا یہ خراج تحسین بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔
حضرت نانوتوی نے طالب علمی کے زمانے میں بہت سے خواب دیکھے تھے جو آنے والے دور میں ان کی خدمات اور رفع درجات کی طرف مشیر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشریٰ وخوشخبری تھے۔چنانچہ مولانا محمد یعقوب نانوتوی ؒجو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ہم وطن،رفیق درس اور ہم زلف بھائی تھے،فرماتے ہیں:
’’ایام طالب علمی میں مولوی (محمد قاسم)صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں اور مجھ سے ہزاروں نہریں جاری ہیں۔انہوں نے یہ خواب جناب والد صاحب(یعنی حضرت مولانا مملوک علیؒ)سے ذکر کیا انہوں نے فرمایا کہ تم سے علم دین کا فیض بکثرت جاری ہوگا ‘‘
(سوانح مولانا قاسم ص۹)
پیر، 16 جولائی، 2012
اتوار، 15 جولائی، 2012
ہفتہ، 7 جولائی، 2012
جوش ملیح آبادی
شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔
آپ 5 دسمبر 1898ء کو اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نےقومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ 22 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
آپ کی ایک نظم ’البیلی صبح‘ پیش خدمت ہے۔
پیر، 12 مارچ، 2012
جمعہ، 13 جنوری، 2012
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)