ڈاکٹر شاہد وصی
سرزمین بہار ہمیشہ سے اردو زبان وادب کے گیسو و کاکل کو سنوارتی آرہی ہے۔ اردو خواہ جمنا کنارے جمنی ہو یا راوی و ستلج کی موجوں سے اس نے اٹکھیلیاں کرنی شروع کی ہو، دریائے سندھ کے ساحلوں پراس نے بال و پر نکالے ہوں یا جنوب کی پہاڑیوں پر اس نے چوکڑیاں بھری ہوں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہار بھی روز اول سے ہی اردو ادب کی عظیم وراثت کی امین رہی ہے۔ یہاں نثر و نظم کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید اور ادب کی تمام جدید اصناف کی روایتیں بھی ہمیشہ زندہ و تابندہ رہی ہیں۔ جس زمانے میں الطاف حسین حالیؔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ لکھ کر تذکراتی و بیاضی تبصروں کو تنقید کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کررہے تھے اور اردو کے شعری سرمایے کی قدر و قیمت متعین کرنے کے ساتھ اس کے اصول و ضوابط لکھ رہے تھے، اسی زمانے میں بہار میں بھی ’’کاشف الحقائق‘‘ کے ذریعہ امداد امام اثرؔ عالمی شعری پس منظر میں اردو شاعری کا مطالعہ کررہے تھے۔ جس عہد میں مولوی نذیر احمد اردو کی داستانوی روایت سے انحراف کرتے ہوئے نئی صنف ’’ناول‘‘ کی داغ بیل ڈال رہے تھے، ٹھیک اسی عہد میں یہاں شاد عظیم آبادی اور اصلاح النساء نے بھی اس صنف میں لائق تقلید نقش پا چھوڑے۔ اردو ادب کو تحقیق کا ’’معلم ثانی‘‘ اسی سرزمین نے عطا کیا اور اسی خاک سے تنقید کا وہ شعلہ جوالہ ابھرا جس نے ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ ڈال کر بہت سارے خود ساختہ بتوں کو تنکوں کی مانند اڑا دیا۔ اس ادبی وراثت کا ایک اہم حصہ میر شناسی کی روایت بھی ہے، جو اس خطے کے ادیبوں اور دانشوروں کے فکری شعور اور ذوقِ سخن کا مظہر ہے۔
میر تقی میرؔ کو آپ خدائے سخن مانیں یا نہ مانیں، اس کے سر پیغمبرانہ سخنوری کا تاج سجائیں یا نہ سجائیں، اس حقیقت سے مفر نہیں کہ میر کی شاعری ایک ایسی کائنات ہے جس میں جذبات، احساسات، غم اور خوشی کے بے شمار رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی غزلوں نے محبت کی لطافت، درد کی شدت، اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑے دلکش اور سادہ انداز میں پیش کیا ہے۔زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد میر کی شاعری دو صدی گزرنے کے بعد آج بھی اتنی ہی پرکشش اور جاذب قلب و نظر ہے ۔ ’’نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب‘‘، ’’کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا‘‘اور ’’کون یہ نغمہ سرا میرؔ کے انداز میں ہے‘‘ کے ذریعہ ذوقؔ، غالبؔ سے لیکر عہد حاضر کے کلیمؔ تک نے میر کے انداز اور سخنوری کے سامنے اپنی جبین عقیدت خم کی ہے۔
میرؔ اردو شاعری کے ایسے لعل ہیں جن کی شعریات کی تفہیم و تعبیر ہر دور کے ناقدین نے کی ہے۔ عہد تذکرہ نگاری سے لیکر جدید تنقید نگاری تک سبھی ناقدین نے میرؔ کی شاعری کے مختلف جہات کو روشن کیا ہے اور اس کی قدر و قیمت متعین کرنے کے ساتھ اس میں نئے جہانِ معانی کی تلاش کی ہے۔ میرؔ کو گزرے دو سو سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا، لیکن ان کے کلام کی آفاقیت و ہمہ گیری آج بھی ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ میر شناسی کے حوالے سے جب ہم بہار کے تذکرہ نگاروں اور ناقدوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس ضمن میں پہلا نام میر غلام حسین شورشؔ عظیم آبادی (متوفی ۱۱۹۵ھ) کا آتا ہے۔ یہ میرؔ کے ہم عصر ہیں اور میرؔ کی حیات ہی میں انہوں نے شعرائے ریختہ کا تذکرہ ’’تذکرۂ شورش‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ یہ تذکرہ فارسی زبان میں ہے۔ اس تذکرے کی بابت پروفیسر اعجاز علی ارشد لکھتے ہیں: