Ads 468x60px

ہفتہ، 11 جنوری، 2025

’’اردو جرنل- 15 ‘‘: خدائے سخن کی استادی کو عقیدت مندانہ خراج

ڈاکٹر شاہد وصی 

میر تقی میرؔ کو آپ خدائے سخن مانیں یا نہ مانیں، اس کے سر پیغمبرانہ سخنوری کا تاج سجائیں یا نہ سجائیں، اس حقیقت سے مفر نہیں کہ میر کی شاعری ایک ایسی کائنات ہے جس میں جذبات، احساسات، غم اور خوشی کے بے شمار رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی غزلوں نے محبت کی لطافت، درد کی شدت، اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑے دلکش اور سادہ انداز میں پیش کیا ہے۔زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد میر کی شاعری دو صدی گزرنے کے بعد آج بھی اتنی ہی پرکشش اور جاذب قلب و نظر ہے ۔ ’’نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب‘‘، ’’کہتے ہیں اگلے
زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا‘‘اور ’’کون یہ نغمہ سرا میرؔ کے انداز میں ہے‘‘ کے ذریعہ ذوقؔ، غالبؔ سے لیکر عہد حاضر کے کلیمؔ تک نے میر کے انداز اور سخنوری کے سامنے اپنی جبین عقیدت خم کی ہے۔  میرؔ اردو شاعری کے ایسے لعل ہیں جن کی شعریات کی تفہیم و تعبیر ہر دور کے ناقدین نے کی ہے۔ عہد تذکرہ سے لیکر جدید تنقید نگاری تک سبھی ناقدین نے میرؔ کی شاعری کے مختلف جہات کو روشن کیا ہے اور اس کی قدر و قیمت متعین کرنے کے ساتھ میرؔ کی کائنات میں نئے جہانِ معانی کی تلاش و دریافت کی ہے۔ میرؔ کو گزرے دو سو سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا، لیکن ان کے کلام کی آفاقیت و ہمہ گیری آج بھی ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔

شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا علمی ، ادبی و تحقیقی ترجمان ’’اردو جرنل ۱۵‘‘ کا حالیہ شمارہ بھی میرؔ تقی میر کی استادی کو عقیدت مندانہ خراج ہے۔ یہ مجلہ اردو کے معروف ناقد و دانشور اور فکشن تنقید کے حوالے سے استنادو مراجعت کا درجہ رکھنے والے پروفیسر شہاب ظفر اعظمی کی ادارت میں تسلسل کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ اس مجلے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ یو جی سی کے کیئر لسٹ میں شامل ہے، جو اس کے تحقیقی شان کی علامت ہے۔ 

اردو جنرل ۱۵ کا حالیہ شمارہ میر تقی میرؔ کی کل کائنات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہاں عام قاری کے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوگا کہ آخر دو ڈھائی صدی گزرنے کے بعد میر تقی میرؔ کے فکر فن کے تعلق سے شمارہ نکالنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ اس کی عصری معنویت کیا ہے؟ میر پر اتنے تحقیقی کام ہوچکے ہیں کہ آج ’’میریات‘‘ کی حیثیت ایک صنف کی سی ہوگئی ہے، ایسے میں آخر کن نئے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ روا روی کے انداز میں برسوں سے چبائے ہوئے مضامین و مقالات ہی یکجا کردیئے گئے ہوں اور روندی ہوئی راہگزر پر چلنے کی کوشش کی گئی ہو۔ اس طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مجلے کے مدیر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنے اداریے کی ابتدا کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 

بدھ، 1 جنوری، 2025

تنقید کی زبان

ڈاکٹر شاہد وصی 

تخلیق اور تنقید کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادب میں جتنی اہمیت ایک تخلیق کار کی ہے، اتنی ہی کسی ناقد کی بھی ہے۔ تنقید کا بنیادی مقصد تفہیم متن اور فن پارے کی تعیین قدر ہے۔ تنقید نگار قاری اور فن پارے کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ وہ فن پارے کا ادب میں معیار متعین کرتا ہے، وہیں اس کے محاسن و معائب اور قدر و قیمت کا تعین بھی کرتا ہے۔ کلیم الدین کی نگاہ میں تنقید کی ادب میں وہی حیثیت ہے جو کسی باغ اور گلستان میں مالی اور باغباں کی ہے۔ جس طرح باغباں قینچی کی مدد سے مرجھائے پتے اور خشک ہوچکی شاخوں کو کاٹ کر اسے خوشنما اور جاذب نظر بناتا ہے، بعینہ یہی کام ایک تنقید نگار کے ذریعہ بھی انجام پاتا ہے۔ تنقید نگار کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ادب میں کسی فن پارے کیلئے اصول وضع کرے اور اس کے ضابطے بنائے تاکہ ایک تخلیق کار ان اصول و ضوابط کی روشنی میں اپنی تخلیقات کو ادبی منزل تک پہنچا سکے۔ دیگر بہت سارے اصناف سخن کی طرح تنقید کا فن بھی اردو میں مغرب کے زیر اثر پروان چڑھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مغربی ادبیات کی آمد سے پہلے مشرق میں اردو ادبا اور دانشوران کے اندر کوئی تنقیدی شعور نہیں تھا۔ وجہی سے لیکر عہد حاضر تک کے جتنے بھی فنکار و تخلیق کار گزرے ہیں سبھوں کے اندر میں ایک اچھا تنقیدی شعور موجود تھا، کیونکہ اس کے بغیر کوئی اچھا فن پارہ وجود میں ہی نہیں آسکتا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان میں تنقید کے باضابطہ اصول مغربی لٹریچروں کی مدد سے ہی بنائے گئے۔ آل احمد سرور اپنے ایک مضمون میں اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 


’’مغرب کے اثر سے اردو میں کئی خوشگوار اضافے ہوئے۔ ان میں سب سے اہم فن تنقید ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اثر سے پہلے اردو ادب میں کوئی تنقیدی شعور نہیں رکھتا تھا یا شعر و ادب کے متعلق گفتگو، شاعروں پر تبصرہ اور زبان و بیان کے محاسن پر بحث نہیں ہوتی تھی۔ بڑے تخلیقی کارنامے بغیر ایک اچھے تنقیدی شعور کے وجود میں نہیں آسکتے۔ ‘‘
( تنقید کیا ہے؟ پروفیسر آل احمد سرور۔ ص۱۴۲)

یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کارنامہ یا کوئی بھی فن پارہ اسی وقت شاہکار اور ادبی کہلاتا ہے جب اس کے تخلیقی عمل میں تنقیدی شعور اور فنی بصیرت کام کررہی ہوتی ہے۔ اردو میں باضابطہ تنقید کی شروعات خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے ہوتی ہے، لیکن تنقیدی خیالات و افکار ہمیں اس سے پہلے بھی ہر فنکار و تخلیق کار کے یہاں جا بہ جا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حالیؔ سے پہلے بھی وجہیؔ سے لیکر میرؔ و غالبؔ تک بے شمار شہ پارے تخلیق کئے گئے، اگر ان تمام کے تخلیقی عمل کے دوران تنقیدی شعور کارفرما نہ ہوا ہوتا تو یہ فن پارے شاہکار نہیں بن سکتے تھے۔ پروفیسر احتشام حسین کا خیال ہے کہ اردو ادب کی پیدائش ہی اس وقت ہوئی جب پہلے سے بہت ساری زبانوں کے ادب موجود تھے اور اچھے یا برے تنقیدی معیارات وجود میں آچکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ہر ادیب کے پاس اعلی یا ادنی تنقید کا کوئی نہ کوئی معیار ضرور ہوتا ہے جو تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو اچھا تخلیقی عمل بھی وجود میں نہ آئے۔ گویا اچھی تخلیقی قوت، اچھی تنقیدی قوت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ‘‘

(ادبی تنقید کے مسائل: مشمولہ روایت اور بغاوت۔ سید احتشام حسین، ص۔۱۴) 

جمعہ، 13 دسمبر، 2024

اردو میں ناول تنقید کے نظری مباحث

ڈاکٹر شاہد وصی 

تعیین قدر اور تفہیم ادب کیلئے فن پارے کو انتقادی نقطۂ نظر سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر زندہ ادب میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو تخلیقی سرمایے اور فن پارے کو مسلمہ اصول کی روشنی میں جانچتے ہیں اور جہان ادب میں اس کی قدر و قیمت کی تعیین کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ تخلیق کار اور عام قاری کے درمیان رابطے کا بھی کام کرتے ہیں۔ ان کے ذمے فن پارے کے اجمال کی تفصیل، تلمیحات واستعارات کی تفسیر ، تخلیق کار کے ویژن اور مقصدیت کی تشریح بھی ہوتی ہے۔ مذکورہ پس منظر میں تنقید تخلیق کے بعد وقوع پذیر ہوتی ہے۔ لیکن تعیین قدر اور تفہیم ادب کے علاوہ تنقیدکی ایک اور شکل ہے جو ایک تخلیق کار کے اندر چھپی ہوتی ہے۔ اس کا عمل فن پارے کے وجود میں آنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے اور فن پارے کی پیشکش کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار اپنا راستہ طے کرتا رہتا ہے۔ 

اردو زبان میں صنف ناول نے اپنے پہلے نقش ڈپٹی نذیر احمد کی تصنیف ’’مراۃ العروس‘‘ ۱۸۶۹ء سے ۲۰۲۴ء تک تقریباً ڈیڑھ سو سال کا سفر پورا کرلیا ہے۔ اس ڈیڑھ صدی کے دوران سینکڑوں ناول لکھے گئے ، چند ایسے بھی منصہ شہود پر آئے جسے عالم گیر شہرت ملی، مگر جب ہم صنف ناول کے تنقیدی سرمایے پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو اس باب میں قدرے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابتدا سے عہد حاضر تک ارو ناولوں پر جتنی بھی تنقید کی گئی اور جس طرح کی بھی تحریریں انتقادیات ناول کے باب میں لکھی گئیں اس کے واضح طور پر دو پہلو ہیں۔ ایک ناول کے نظری و فکری مباحث اور دوسرے انفرادی مطالعے۔ پھر نظری و فکری مباحث کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) ناول نگاری کا فنی مطالعہ (۲) مختلف ناولوں کا موضوعاتی مطالعہ و تجزیہ۔ اسے اردو زبان کی بدقسمتی سے تعبیر کریں یا اس پر افسوس و ماتم کیا جائے کہ اردو میں فن ناول نگاری اور ناول پر فنی و فکری مباحث کی کچھ خاص، مستقل اور مستند کتاب تصنیف نہیں کی گئی۔ اس مضمون میں ہم نے اردو ناول تنقید کے فکری مباحث کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ 

اردو ناول کے فکر و فن کے حوالے سے اہم اور مستقل تصانیف میں پروفیسر سید محمد عقیل کی کتاب ’’جدید ناول کا فن‘‘ (۱۹۹۷) اور ڈاکٹر احسن فاروقی اور پروفیسر نور الحسن ہاشمی کی مشترکہ تصنیف ’’ناول کیا ہے؟‘‘ (۱۹۵۱) کو رکھا جاسکتا ہے، جو بہت حد تک فن ناول کی ضروریات کو پوری کرتی ہیں۔ ویسے تو اردو زبان میں ناول کے تعلق سے اظہار خیال اور تبصرے ناول کے آغاز سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ ابتدا میں مولوی کریم الدینؔ، شادؔ عظیم آبادی، ڈپٹی نذیرؔ احمداور مرزا ہادی رسواؔ وغیرہ کی تعارفی و مقدماتی تحریروں میں ناول کے تعلق سے تنقیدی مباحث مل جاتے ہیں، وہیں عبدالحلیم شررؔ، پریم چندؔ، سجاد حیدر یلدرمؔ اور برج نرائن چکبستؔ کے مضامین بھی ناول تنقید کے اولین نقوش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ناول کے آغاز سے لیکر تقریباً ۷۵؍ سالوں کے بڑے وقفے کے بعد علی عباس حسینیؔ پہلے ایسے ناقد کے طور پر سامنے آتے ہیں جو اردو ناول کی تنقید پر ایک جامع، مفصل اور مستقل کتاب لکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ (۱۹۴۴ء) جہاں اردو ناول نگاری کی تاریخی ارتقا سے بحث کرتی ہے، وہیں ناول نگاروں کے معائب و محاسن اور ناول کی خصوصیات و نقائص پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ اردو کی شعری تنقید میں جو مقام مولوی حسین احمد آزادؔ کی ’’آب حیات‘‘ کو حاصل ہے، اردو ناول کی تنقیدی تاریخ میں وہی مقام و مرتبہ علی عباس حسینی کی تصنیف ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ کو حاصل ہے۔ یہ یکسانیت اس اعتبار سے ہے کہ اردو کی شعری تنقید میں ’’آب حیات‘‘ نے آنے والے ناقدین کیلئے راہیں ہموار کی، بعینہ اسی طرح ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ کی روشنی ہی میں بعد کے ناول ناقدین نے اپنی اپنی راہیں نکالی ہیں۔ فکشن تنقید کی تاریخ لکھتے ہوئے پروفیسر ارتضیٰ کریم اس کتاب کے تعلق سے رقم طراز ہیں: 

منگل، 15 اکتوبر، 2024

بہار میں میر شناسی کی روایت

 ڈاکٹر شاہد وصی 

سرزمین بہار ہمیشہ سے اردو زبان وادب کے گیسو و کاکل کو سنوارتی آرہی ہے۔ اردو خواہ جمنا کنارے جمنی ہو یا راوی و ستلج کی موجوں سے اس نے اٹکھیلیاں کرنی شروع کی ہو، دریائے سندھ کے ساحلوں پراس نے بال و پر نکالے ہوں یا جنوب کی پہاڑیوں پر اس نے چوکڑیاں بھری ہوں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہار بھی روز اول سے ہی اردو ادب کی عظیم وراثت کی امین رہی ہے۔ یہاں نثر و نظم کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید اور ادب کی تمام جدید اصناف کی روایتیں بھی ہمیشہ زندہ و تابندہ رہی ہیں۔ جس زمانے میں الطاف حسین حالیؔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ لکھ کر تذکراتی و بیاضی تبصروں کو تنقید کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کررہے تھے اور اردو کے شعری سرمایے کی قدر و قیمت متعین کرنے کے ساتھ اس کے اصول و ضوابط لکھ رہے تھے، اسی زمانے میں بہار میں بھی ’’کاشف الحقائق‘‘ کے ذریعہ امداد امام اثرؔ عالمی شعری پس منظر میں اردو شاعری کا مطالعہ کررہے تھے۔ جس عہد میں مولوی نذیر احمد اردو کی داستانوی روایت سے انحراف کرتے ہوئے نئی صنف ’’ناول‘‘ کی داغ بیل ڈال رہے تھے، ٹھیک اسی عہد میں یہاں شاد عظیم آبادی اور اصلاح النساء نے بھی اس صنف میں لائق تقلید نقش پا چھوڑے۔ اردو ادب کو تحقیق کا ’’معلم ثانی‘‘ اسی سرزمین نے عطا کیا اور اسی خاک سے تنقید کا وہ شعلہ جوالہ ابھرا جس نے ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ ڈال کر بہت سارے خود ساختہ بتوں کو تنکوں کی مانند اڑا دیا۔ اس ادبی وراثت کا ایک اہم حصہ میر شناسی کی روایت بھی ہے، جو اس خطے کے ادیبوں اور دانشوروں کے فکری شعور اور ذوقِ سخن کا مظہر ہے۔ 

میر تقی میرؔ کو آپ خدائے سخن مانیں یا نہ مانیں، اس کے سر پیغمبرانہ سخنوری کا تاج سجائیں یا نہ سجائیں، اس حقیقت سے مفر نہیں کہ میر کی شاعری ایک ایسی کائنات ہے جس میں جذبات، احساسات، غم اور خوشی کے بے شمار رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی غزلوں نے محبت کی لطافت، درد کی شدت، اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑے دلکش اور سادہ انداز میں پیش کیا ہے۔زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد میر کی شاعری دو صدی گزرنے کے بعد آج بھی اتنی ہی پرکشش اور جاذب قلب و نظر ہے ۔ ’’نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب‘‘، ’’کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا‘‘اور ’’کون یہ نغمہ سرا میرؔ کے انداز میں ہے‘‘ کے ذریعہ ذوقؔ، غالبؔ سے لیکر عہد حاضر کے کلیمؔ تک نے میر کے انداز اور سخنوری کے سامنے اپنی جبین عقیدت خم کی ہے۔ 

 میرؔ اردو شاعری کے ایسے لعل ہیں جن کی شعریات کی تفہیم و تعبیر ہر دور کے ناقدین نے کی ہے۔ عہد تذکرہ نگاری سے لیکر جدید تنقید نگاری تک سبھی ناقدین نے میرؔ کی شاعری کے مختلف جہات کو روشن کیا ہے اور اس کی قدر و قیمت متعین کرنے کے ساتھ اس میں نئے جہانِ معانی کی تلاش کی ہے۔ میرؔ کو گزرے دو سو سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا، لیکن ان کے کلام کی آفاقیت و ہمہ گیری آج بھی ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ میر شناسی کے حوالے سے جب ہم بہار کے تذکرہ نگاروں اور ناقدوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس ضمن میں پہلا نام میر غلام حسین شورشؔ عظیم آبادی (متوفی ۱۱۹۵ھ) کا آتا ہے۔ یہ میرؔ کے ہم عصر ہیں اور میرؔ کی حیات ہی میں انہوں نے شعرائے ریختہ کا تذکرہ ’’تذکرۂ شورش‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ یہ تذکرہ فارسی زبان میں ہے۔ اس تذکرے کی بابت پروفیسر اعجاز علی ارشد لکھتے ہیں: