جمعہ، 13 دسمبر، 2024

اردو میں ناول تنقید کے نظری مباحث

ڈاکٹر شاہد وصی 

تعیین قدر اور تفہیم ادب کیلئے فن پارے کو انتقادی نقطۂ نظر سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر زندہ ادب میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو تخلیقی سرمایے اور فن پارے کو مسلمہ اصول کی روشنی میں جانچتے ہیں اور جہان ادب میں اس کی قدر و قیمت کی تعیین کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ تخلیق کار اور عام قاری کے درمیان رابطے کا بھی کام کرتے ہیں۔ ان کے ذمے فن پارے کے اجمال کی تفصیل، تلمیحات واستعارات کی تفسیر ، تخلیق کار کے ویژن اور مقصدیت کی تشریح بھی ہوتی ہے۔ مذکورہ پس منظر میں تنقید تخلیق کے بعد وقوع پذیر ہوتی ہے۔ لیکن تعیین قدر اور تفہیم ادب کے علاوہ تنقیدکی ایک اور شکل ہے جو ایک تخلیق کار کے اندر چھپی ہوتی ہے۔ اس کا عمل فن پارے کے وجود میں آنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے اور فن پارے کی پیشکش کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار اپنا راستہ طے کرتا رہتا ہے۔ 

اردو زبان میں صنف ناول نے اپنے پہلے نقش ڈپٹی نذیر احمد کی تصنیف ’’مراۃ العروس‘‘ ۱۸۶۹ء سے ۲۰۲۴ء تک تقریباً ڈیڑھ سو سال کا سفر پورا کرلیا ہے۔ اس ڈیڑھ صدی کے دوران سینکڑوں ناول لکھے گئے ، چند ایسے بھی منصہ شہود پر آئے جسے عالم گیر شہرت ملی، مگر جب ہم صنف ناول کے تنقیدی سرمایے پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو اس باب میں قدرے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابتدا سے عہد حاضر تک ارو ناولوں پر جتنی بھی تنقید کی گئی اور جس طرح کی بھی تحریریں انتقادیات ناول کے باب میں لکھی گئیں اس کے واضح طور پر دو پہلو ہیں۔ ایک ناول کے نظری و فکری مباحث اور دوسرے انفرادی مطالعے۔ پھر نظری و فکری مباحث کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) ناول نگاری کا فنی مطالعہ (۲) مختلف ناولوں کا موضوعاتی مطالعہ و تجزیہ۔ اسے اردو زبان کی بدقسمتی سے تعبیر کریں یا اس پر افسوس و ماتم کیا جائے کہ اردو میں فن ناول نگاری اور ناول پر فنی و فکری مباحث کی کچھ خاص، مستقل اور مستند کتاب تصنیف نہیں کی گئی۔ اس مضمون میں ہم نے اردو ناول تنقید کے فکری مباحث کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ 

اردو ناول کے فکر و فن کے حوالے سے اہم اور مستقل تصانیف میں پروفیسر سید محمد عقیل کی کتاب ’’جدید ناول کا فن‘‘ (۱۹۹۷) اور ڈاکٹر احسن فاروقی اور پروفیسر نور الحسن ہاشمی کی مشترکہ تصنیف ’’ناول کیا ہے؟‘‘ (۱۹۵۱) کو رکھا جاسکتا ہے، جو بہت حد تک فن ناول کی ضروریات کو پوری کرتی ہیں۔ ویسے تو اردو زبان میں ناول کے تعلق سے اظہار خیال اور تبصرے ناول کے آغاز سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ ابتدا میں مولوی کریم الدینؔ، شادؔ عظیم آبادی، ڈپٹی نذیرؔ احمداور مرزا ہادی رسواؔ وغیرہ کی تعارفی و مقدماتی تحریروں میں ناول کے تعلق سے تنقیدی مباحث مل جاتے ہیں، وہیں عبدالحلیم شررؔ، پریم چندؔ، سجاد حیدر یلدرمؔ اور برج نرائن چکبستؔ کے مضامین بھی ناول تنقید کے اولین نقوش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ناول کے آغاز سے لیکر تقریباً ۷۵؍ سالوں کے بڑے وقفے کے بعد علی عباس حسینیؔ پہلے ایسے ناقد کے طور پر سامنے آتے ہیں جو اردو ناول کی تنقید پر ایک جامع، مفصل اور مستقل کتاب لکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ (۱۹۴۴ء) جہاں اردو ناول نگاری کی تاریخی ارتقا سے بحث کرتی ہے، وہیں ناول نگاروں کے معائب و محاسن اور ناول کی خصوصیات و نقائص پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ اردو کی شعری تنقید میں جو مقام مولوی حسین احمد آزادؔ کی ’’آب حیات‘‘ کو حاصل ہے، اردو ناول کی تنقیدی تاریخ میں وہی مقام و مرتبہ علی عباس حسینی کی تصنیف ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ کو حاصل ہے۔ یہ یکسانیت اس اعتبار سے ہے کہ اردو کی شعری تنقید میں ’’آب حیات‘‘ نے آنے والے ناقدین کیلئے راہیں ہموار کی، بعینہ اسی طرح ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ کی روشنی ہی میں بعد کے ناول ناقدین نے اپنی اپنی راہیں نکالی ہیں۔ فکشن تنقید کی تاریخ لکھتے ہوئے پروفیسر ارتضیٰ کریم اس کتاب کے تعلق سے رقم طراز ہیں: